محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپا اور عمر ایوب کی تقریر کا بلیک آؤٹ پاکستان کے کئی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال ملک میں بڑھتے ہوئے فاشسٹ رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپا اور عمر ایوب کی تقریر کا بلیک آؤٹ حیسے واقعات سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ طاقتور ریاستی عناصر کو شہباز شریف کی حکومت میں کھلی چھوٹ ملنے جا رہی ہے۔
سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اسے واقعات کو قبول نہیں کیا جا سکتا جب کہ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سے سیاست دانوں میں تلخیاں بڑھیں گی اور ملک کی سیاسی صورت حال اور طوفانی ہو جائے گی۔ تاہم خوش امید تجزیہ نگار اس کو وقتی ابھار قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں حالات کچھ وقت کے بعد بہتر ہوجائیں گے۔
چھاپے پر موقف
پاکستان تحریک انصاف اور دوسری حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے نامزد کردہ صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کے گھر پر اتوار کی رات چھاپہ مارا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی نے سرکار کی زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ اس حوالے سے بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان محمد اچکزئی نے اس تاثر کوبالکل غلط قرار دیا ہے کہ محمود خان اچکزئی سے کوئی انتقام لیا جا رہا ہے یا ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر کوئی پابندی ہے۔
جان محمد اچکزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”زمینوں کو چھڑوانے کا آپریشن کچھ ہفتوں سے چل رہا تھا۔ محمود خان نے ڈھائی کنال زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا، جس کو چھڑانے کے لیے مقامی انتظامیہ نے آپریشن شروع کیا۔‘‘
تقریر کا ردعمل
تاہم پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اس تاثر کو بالکل رد کرتی ہے اور وہ اسے انتقامی کاروائی قرار دیتی ہے۔ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک رہنما عبدالرحیم زیارت وال نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”محمود خان اچکزئی نے جمعہ کو تقریر کرتے ہوئے آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کے چہروں سے نقاب اتار دیا تھا۔ یہ چھاپہ بنیادی طور پر اسی کا ردعمل ہے اور طاقت ور ریاستی عناصر کا کام ہے۔‘‘ عبدالرحیم زیارت وال کے مطابق صرف گھر پہ ہی چھاپہ نہیں مارا گیا، ”بلکہ پارٹی کے ایک رہنما کے شو روم کو بند کردیا گیا ہے جبکہ پارٹی کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول کا بھی محاصرہ کیا گیا۔‘‘
کھلی چھوٹ کے اشارے
کچھ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ عمر ایوب کی تقریر کے بلیک آؤٹ اور چھاپے دونوں میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کے دوران جاسوسی اداروں کو کھلی چھوٹ کے اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پی ٹی آئی اور محمود خان دونوں ہی جی ایچ کیو کے خلاف ہیں، تو کارروائی پھر اور کس کے اشارے پر ممکن ہے؟‘‘
ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق یہ واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جاسوسی داروں کو کھلی چھوٹ ملنے جا رہی ہے، ”جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھیں اور اس سے سب سے زیادہ بدنامی خود مسلم لیگ نون اور شہباز شریف کی حکومت کی ہو گی۔‘‘ پشاور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ریحان اشرف کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو فاشسٹ طریقے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنائے گئے تھے، اب وہ اسلام آباد بھی پہنچ رہے ہیں۔
ریحان اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”عمر ایوب کی تقریر کا بلیک آؤٹ وہی قوتیں کر سکتی ہیں جو طاقتور ہیں اور یہ بڑا واضح ہے کہ محمود خان اچکزئی کو کس نے ٹارگٹ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کسی لگی لپٹی کے بغیر فوج کے جرنیلوں پر رشوت لینے اور انتخابات میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا تھا۔‘‘
کچھ سیاسی کارکنان کا خیال ہے کہ کیونکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اس لیے ان واقعات سے سیاسی جماعتوں میں بھی تلخیاں بڑھ سکتی ہیں۔ بلوچستان کی سابق رکن اسمبلی یاسمین لہڑی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بلوچستان میں پہلے ہی غصہ بہت زیادہ ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی ہے، جس پر پورا صوبہ احتجاج بنا ہوا ہے۔ اچکزئی کے گھر پر چھاپہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔‘‘
اس سیاسی صورتحال پر کئی مبصرین مایوس نظر آتے ہیں۔ تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے، ”یہ ایک مثبت بات ہے کہ جو شور شرابہ، احتجاج اور غصہ سڑکوں پہ نکل رہا تھا، اب وہ ایوان تک پہنچ گیا ہے۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ابھی کچھ دن جذباتی تقریریں ہوں گی لیکن بعد میں سب ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان بھی یہی چاہیں گے کہ ماحول ٹھنڈا ہو اور وہ اس حوالے سے کام بھی کریں گے۔‘‘
پی پی پی کا مؤقف
پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کر سکتی، جس کا مقصد آزادی اظہار رائے کو دبانا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے پہلے ہی بلیک آؤٹ کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے اور مسئلہ حل ہو چکا ہے۔‘‘
نفیسہ شاہ کے مطابق بدقسمتی سے یہ سلسلہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ہی شروع ہوا تھا، ” اس دور میں پاکستان ٹیلی ویژن کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ حزب اختلاف کی کوریج نہ کریں۔ تاہم موجودہ ڈپٹی اسپیکر نے وزارت اطلاعات کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ حزب اختلاف کی مناسب کوریج کو یقینی بنائیں۔‘‘ اچکزئی کے گھر پہ چھاپے کے حوالے سے نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی اس کی مذمت کر چکے ہیں، ”سیاسی قائدین کے گھر پر کوئی بھی چھاپہ کسی بھی طور پر ناقابل قبول ہے۔‘‘