’ارتھ آور‘ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی طرف سے پیش کردہ توانائی کی بچت کا ایک عالمی پروگرام ہے۔ اس کے مطابق لوگوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ ہر سال مارچ کے آخری ہفتہ (سنیچر) کو مقامی وقت کے مطابق رات 8:30 بجے 1 گھنٹے کے لیے غیر ضروری لائٹس اور بجلی کے آلات بند کر دیں، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے ان کا تعاون ظاہر کرنا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زیادہ اخراج موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے جو کہ انسانی بقا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر دنیا بھر کے لوگوں کے رویوں میں تبدیلی سے دنیا پر اس خطرے کے اثرات کم ہوں گے۔ اس ضمن میں حالیہ برسوں میں چین کی سائنس اور تکنیک کے میدان میں نمایاں ترقی سے کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ چین کم کاربن ٹیکنالوجیز کی ترقی اور اطلاق کو فروغ دیا ہے۔
کم کاربن پروڈکٹس جیسے نئی توانائی کی گاڑیاں اور اسمارٹ توانائی بچانے والے گھریلو آلات بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں، جو توانائی کی کھپت اور کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ چین کی توانائی کی ساخت بتدریج بہتر ہو رہی ہے، اور صاف توانائی کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے پن بجلی، ہوا کی طاقت اور شمسی توانائی کا تناسب سال بہ سال بڑھ رہا ہے، جبکہ روایتی کوئلہ اور دیگر اعلی کاربن توانائی کے ذرائع کا تناسب بتدریج کم ہو رہا ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ممالک میں سے ایک کے طور پر چین نے ارتھ آور واقعات کے دوران ایک مثبت بین الاقوامی امیج اور قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے چین کے منصوبوں کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے وسیع پیمانے پر پذیرائی اور حمایت حاصل ہوئی ہے اور اس نے عالمی ماحولیاتی نظم و نسق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔