اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان لڑائی کو چودہ روز گزر گئے۔ کریملن نے جمعہ کے روز کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے بیانات جن میں انھوں نے روسی صدر پوٹین کا حماس تحریک سے موازنہ کیا تھا “ناقابل قبول” ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ اب ایک خطرناک لمحہ پیش آنے کا امکان ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں متوقع زمینی کارروائی شروع ہونے کے بعد روسی شہریوں کو درپیش خطرات میں تیزی سے اضافہ ہوجائے۔
یاد رہے اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والی حماس کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیلی قصبوں کے اندر ایک حملہ کیا تھا جس میں 1400 اسرائیلی مارے گئے تھے۔ 7 اکتوبر سے اسرائیل غزہ کی پٹی پر روزانہ شدید بمباری کر رہا ہے اور اب تک 4000 فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔
واضح رہے جمعرات کو اپنے بیانات میں بائیڈن نے حماس کے اقدامات کو پوتین کے اقدامات سے تشبیہ دینے کی کوشش کی تھی۔ روسی افواج نے فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ بائیڈن نے کہا کہ حماس اور پوتین دو مختلف خطرات کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن ان میں یہ چیز مشترک ہے۔ وہ یہ ہے کہ دونوں پڑوسی جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
پیسکوف نے کہا کہ ایک ذمہ دار سربراہ مملکت کے لیے اس طرح کی بیان بازی نامناسب ہے۔ یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ ہم روسی فیڈریشن اور اپنے صدر کی طرف اس طرح کے لہجے کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔