جاپان کے مرکزی بینک کی جانب سے سود کی شرحوں میں اضافے کے اعلان کے باوجود جاپانی کرنسی ین امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ 34 برسوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔بدھ کے روز دیکھا گیا کہ کرنسی منڈی میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں جاپانی کرنسی ین تین دہائیوں سے بھی زائد عرصے میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔
ین میں آنے والی اس گراوٹ سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے کہ حکام کرنسی کو مضبوطی فراہم کرنے کے لیے مارکیٹ ٹریڈنگ میں مداخلت بھی کر سکتے ہیں۔
بدھ کے روز جاپانی کرنسی ین ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 151.97 تک گر گئی، جو سن 1990 کے بعد کم ترین سطح ہے۔ البتہ دن کے اختتام پر اس کی قدر میں تھوڑا سا اضافہ بھی ہوا۔ اس سے قبل آخری بار ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں ین کی قدر 151.19 تک پہنچ گئی تھی۔ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے تک ین ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 115 پر تھا، تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس میں نمایاں طور پر مسلسل کمزوری آتی رہی ہے۔
مالیاتی پالیسی میں ایک تاریخی تبدیلی کے طور پر جاپان نے سن 2007 کے بعد رواں ماہ میں پہلی بار سود کی شرحوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ اقدام بھی ین کی گرتی ہوئی قیمت کو مستحکم کرنے میں ناکافی ثابت ہوا۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اب بھی جاپان میں سود کی شرح کافی کم ہے اور اس سے زیادہ اضافے کی توقع بھی نہیں ہے۔ ایک کمزور ین جاپان سے برآمدات کو تو سستا بناتا ہے، تاہم دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت میں یہ صارفین کے لیے درآمدی لاگت اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔
کرنسی کی قدر میں کمی پر تشویش کے لیے بینک آف جاپان، وزارت خزانہ اور جاپان کی مالیاتی سروسز ایجنسی نے ایک ہنگامی میٹنگ بھی کی۔ اس سے قبل جاپانی وزیر خزانہ شونیچی سوزوکی نے کہا تھا کہ حکومت ین کی قدرکو استحکام بخشنے کے لیے ”فیصلہ کن اقدامات” اپنا سکتی ہے۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ”اب ہم مارکیٹ کی حرکت پر انتہائی عجلت کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہیں۔”
حکومت کرنسی مارکیٹ میں براہ راست مداخلت کر سکتی ہے، بڑی مقدار میں ین خرید سکتی ہے اور عام طور پر جاپانی کرنسی کے لیے ڈالر فروخت کر سکتی ہے۔ ٹوکیو نے آخری بار سن 2022 میں اس طرح کے اقدام کیے تھے، جب ین کی قیمت تیزی سے گر رہی تھی۔
جاپان نے گزشتہ ہفتے سن 2007 کے بعد پہلی بار شرح سود میں اضافہ کیا تھا، جس نے مانیٹری پالیسی میں تاریخی تبدیلی کی نشاندہی کی ہے۔ اب تک جاپان میں شرح سود منفی رہی ہے، یعنی قرض لینے کی لاگت صفر تاہم اس میں اضافے کے بعد اب یہ صفر اعشاریہ ایک تک ہو گی، جو اب بھی کافی کم ہے۔
امریکہ نے مہنگائی کو کم کرنے کے لیے شرحوں میں اضافے کی جارحانہ پالیسی اپنائی ہے اور وہ سرمایہ کاروں کے لیے 5.25 سے 5.5 فیصد کی زیادہ پرکشش شرح پیش کرتا ہے اور آئندہ جولائی تک اس قیمت میں رعایت کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ جاپانی کرنسی ین کی قدر میں رواں برس ڈالر کے مقابلے میں پہلے ہی سات فیصد سے بھی زیادہ گر چکی ہے۔
اس کے برعکس سرمایہ کاروں کی جانب سے مضبوط معاشی اعداد و شمار اور مرکزی بینکرز کی ہچکچاہٹ کے ممکنہ تناظر میں شرح سود میں بڑی کٹوتیوں کی توقعات ہیں، جس سے ڈالر کی قدر و قیمت میں مستقل اضافے کا امکان ہے۔