شادی شدہ مسلم خاتون اور اس کے ہندو لیو ان پارٹنر کو تحفظ دینے سے الہ آباد ہائی کورٹ کا انکار، 2000 روپے کا جرمانہ عائد
الہ آباد: الہ آباد ہائی کورٹ نے لِو-ان ریلیشن میں یعنی بغیر شادی کے ایک ساتھ رہ رہے ایک مسلم خاتون اور ہندو مرد کی طرف سے پیش کردہ حفاظت کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ خاتون کی قانونی شادی ختم نہیں ہوئی ہے اور طلاق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق جسٹس رینو اگروال کی بنچ نے مشاہدہ کیا کہ اس قسم کے غیر قانونی تعلقات کو یہ عدالت تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ نیز شریعت کے مطابق قانونی طور پر شادی شدہ مسلمان عورت کسی دوسرے مرد یا ہندو مرد کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ عدالت نے کہا کہ ‘لیو ان ریلیشن شپ’ میں رہنا شریعت کے مطابق زنا اور حرام ہے۔ اس کے ساتھ عدالت نے درخواست گزاروں پر 2000 روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔
رپورٹ کے مطابق، 26 سالہ مسلم خاتون اور 25 سالہ ہندو نوجوان نے عدالت میں اس بنیاد پر تحفظ کی درخواست دائر کی تھی کہ وہ دونوں بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ خاتون نے یہ بھی کہا تھا کہ اس نے اپنی 5 سالہ بیٹی کے ساتھ اپنے شوہر کا گھر چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ عادی شرابی تھا جو اکثر اسے مارتا پیٹتا تھا۔ اس نے مزید کہا کہ اس معاملے کی شکایت اپنے والدین سے کی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، اس لیے اس نے اپنی مرضی سے اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے لیو ان پارٹنر کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔
درخواست گزاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خاتون کا شوہر اُن کو دھمکیاں رہا ہے اور ان کے تعلقات میں خلل پیدا کر رہا ہے۔ خاتون نے کہا کہ اُس نے علی گڑھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سے حفاظت کی درخواست دی تھی لیکن اُنہیں کوئی راحت نہیں ملی۔ بعد ازاں خاتون اور اُس کے ساتھ رہنے والے ساتھی نے یہ ہدایت طلب کرتے ہوئے عدالت کا رُخ کیا کہ اُس کے شوہر کو اُن کی پُرامن زندگی میں مداخلت سے روکا جائے۔
عدالت نے مشاہدہ کیا، ’’عدالت ایسے رشتے کی حفاظت نہیں کر سکتی جو قانون کی حمایت سے محروم ہو۔ اگر عدالت ایسے معاملات میں مداخلت کرے اور غیر قانونی تعلقات کو تحفظ دے، تو اس سے معاشرے میں افراتفری پیدا ہو جائے گی۔‘‘ عدالت نے مزید کہا کہ خاتون نے اپنے شوہر کا گھر بغیر کسی معقول وجہ کے چھوڑ دیا ہے، جو اس معاملہ کا واحد مدعا علیہ ہے۔
دریں اثنا، ریاستی حکومت کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ خاتون نے اپنے شوہر سے کوئی طلاق حاصل نہیں کی تھی اور وہ اب بھی اُس کی قانونی طور پر شادی شدہ بیوی تھی۔ وکیل نے کہا کہ خاتون کا لِو اِن پارٹنر کے ساتھ رہنا شریعت کے مطابق زنا ہے۔
عدالت نے 23 فروری کو اپنے فیصلے میں کہا کہ چونکہ مسلم خاتون نے مذہب کی تبدیلی کے لیے متعلقہ اتھارٹی کو کوئی درخواست نہیں دی ہے اور اپنے شوہر سے طلاق بھی نہیں لی ہے، اس لیے وہ کسی بھی قسم کے تحفظ کی حقدار نہیں ہے۔