ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس سیزفائر ڈیل کے پہلے مرحلے میں چالیس روز تک لڑائی روکنے کی تجویز دی گئی ہے، جس دوران اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔غزہ پٹی میں جاری جنگ میں فائر بندی کے حوالے سےپیرس میں ہونے والے حالیہ مذاکرات سے پوری طرح باخبر ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اس لڑائی کو عارضی طور پر روکنے کے لیے عسکریت پسند گروپ حماس کو ایک مجوزہ معاہدے کا مسودہ دے دیا گیا ہے۔
غزہ پٹی میں گزشتہ برس سات اکتوبر سے اسرائیل کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں، جن کا آغاز اسی دن اسرائیل میں حماس کی جانب سے ایک بڑے حملے کے فوری بعد ہوا تھا۔ اسرائیل کے مطابق حماس کے اس حملے میں قریب 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ تقریباﹰ ڈھائی سو کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔ ان یرغمالیوں میں سے کئی کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن تقریباً 130 اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ان تاحال یرغمالی اسرائیلی شہریوں میں سے تقریباً ایک چوتھائی غالباﹰ مارے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس فلسطینی علاقے میں سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک تقریبا 30,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ غزہ کی لڑائی میں وقفے کے لیے کوششیں جاری ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں رمضان کے مہینے میں عسکری کارروائیاں روکنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
اس ممکنہ فائر بندی سے متعلق مجوزہ معاہدے کے حوالے سے ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ اس ڈیل کے تحت پہلے مرحلے میں چالیس روز کے لیے لڑائی روکی جائے گی، جس دوران اسرائیلی جیلوں میں قید ہر دس فلسطینیوں کی رہائی کے عوض حماس کے زیر قبضہ ایک یرغمالی کو رہا کیا جائے گا۔
روئٹرز کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق اس ممکنہ معاہدے کے مسودے میں مندرجہ ذیل تجاویز دی گئی ہیں:
* اس ڈیل کی مدت پوری ہونے تک دونوں فریق عسکری کارروائیاں مکمل طور پر روک دیں گے۔ غزہ کی فضائی جاسوسی میں ہر روز آٹھ گھنٹے کا وقفہ کیا جائے گا۔
* حماس کے زیر قبضہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں رہا کر دیا جائے گا۔ ان قیدیوں کی رہائی اس تناسب سے ہونا چاہیے کہ انسانی بنیادوں پر رہا کیے جانے والے ہر چالیس یرغمالیوں کے بدلے میں 400 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے، یعنی ہر ایک یرغمالی کے بدلے دس فلسطینی قیدیوں کی رہائی۔
* بے گھر ہو جانے والے غزہ کے رہائشیوں کی شمالی غزہ پٹی میں بتدریج واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔ تاہم ان میں وہ مرد شامل نہیں ہوں گے، جو اپنی عمر کے لحاظ سے عسکری خدمات انجام دینے کے اہل ہوں۔ اس ڈیل کے پہلے مرحلے کے آغاز کے بعد اسرائیلی فوجی غزہ میں دوبارہ گنجان آباد علاقوں سے دور تعینات کر دیے جائیں گے۔
* غزہ میں روزانہ 500 ٹرکوں کے ذریعے امدادی سامان پہنچائے جانے کو یقینی بنایا جائے گا۔ اسی طرح وہاں دو لاکھ خیموں اور ساٹھ ہزار ‘کاروانوں‘ کی ترسیل بھی یقینی بنائی جائے گی۔
* غزہ میں ہسپتالوں اور بیکریوں کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے، جن میں ضروری ساز و سامان وہاں تک پہنچانے کی فوری اجازت اور معاہدے کے تحت طے شدہ مقدار میں ایندھن کی فراہمی بھی شامل ہو گی۔
* اسرائیل اس بات پر آمادہ ہو گا کہ غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ ہٹانے اور دیگر کاموں میں مدد کے لیے وہاں ضروری مشینیں اور معاہدے کے تحت طے شدہ مقدار میں ایندھن بھی پہنچایا جائے، جس کی مقدار میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کیا جائے گا۔ اسی طرح حماس کی جانب سے اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان مشینوں کو اسرائیل کے خلاف یا اسے دھمکانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
اس ڈیل کے تحت پہلے مرحلے میں جن امور پر اتفاق کیا جائے گا، وہ معاہدے کے دوسرے مرحلے میں لاگو نہیں ہوں گے۔ ڈیل کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے حتمی اتفاق رائے کی خاطر آئندہ مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔