حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے قریب ہیں : اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ رکن
غزہ جنگ کے باعث یورپی یونین اسرائیل کے خلاف تجارتی پابندیوں پر غور کرنے لگی
غزہ 16 نومبر (ایجنسی) فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے ایک سینیئر رہنما باسم نعیم نے کہا ہے کہ ‘حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار ہے، تاہم نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ اسرائیل پر جارحیت کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ حماس رہنما نے اس امر کا اظہار جمعہ کے روز کیا ہے۔باسم نعیم حماس کے سیاسی بیورو کے رکن ہیں، انہوں نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ‘اگر جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی اور اس کی شرائط کا اسرائیل نے بھی احترام کیا تو حماس غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا ‘ہم امریکی انتظامیہ اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ غزہ میں اپنی جارحیت کو ختم کرے۔اسرائیلی کابینہ میں جنگی امور سے متعلق ایک وزیر نے کہا ہے کہ اسرائیل لبنان میں جنگ بندی کے لیے ایک بندوںبست کے قریب ہے ۔ تاہم اس بندوبست میں اسرائیل یہ اختیار رکھے گا کہ حزب اللہ نے جب بھی کوئی خلاف ورزی کی تو اسرائیل لبنان کے اندر بھی کارروائی کر سکے گا۔اس وزیر ایلی کوہن کے بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘ روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو کے مطابق ‘ میرے خیال میں ہم ایسے بندوبست کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اس وجہ سے جنگ شروع ہونے کے وقت سے مختلف صورت حال ہے۔اس موقع پر یہ بات بھی واضح کی گئی کہ ہم یہ بات یقینی بنائیں کہ اسرائیلی فوج کو یہ اختیار ہوگا کہ اگر حزب اللہ واپس سرحدی علاقے کی طرف آتی ہے تو اسرائیلی فوج کارروائی کرے۔ اسرائیلی فوج کی یہ کارروائی ہر اس علاقے میں ہو سکے گی جہاں سے یہ خطرہ محسوس کرے گی کہ اس علاقے سے اسرائیلی آبادی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ایک سوال میں ایلی کوہن نے واضح کیا کہ ماضی کے مقابلے میں اب اسرائیل کم در گزر کرنے والا ہوگا۔ اس لیے جیسے ہی حزب اللہ کسی علاقے میں اپنا مضبوط گڑھ بنانے کی کوشش کرے گی اسرائیل کارروائی کرے گا۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ 18 نومبر کو ملاقات کریں گے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور غزہ میں جنگی کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی پاسداری میں ناکامی کی وجہ سے اس کے ساتھ سیاسی مذاکرات کو منجمد کرنے پر بات کریں گے۔ اس بات کا اعلان یورپی یونین کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے کیا۔بوریل نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ایک سال تک اسرائیلی حکام سے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کی اپیلیں کرنے کے بعد اب ہم اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعاون کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے میں نے یورپی یونین کے ممالک کو درآمد پر پابندی لگانے کی تجویز دی۔ اسرائیل کے حوالے سے غیر قانونی بستیوں کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان اقدامات پر یورپی یونین کونسل کے وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے اجلاس میں بحث کی جائے گی۔غزہ سے لیک ہونے والی تصاویر ایک ہولناک صحرا کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ شمالی غزہ میں ہونے والے واقعات کو بیان کرنے کے لیے ‘نسلی صفائی کا لفظ تیزی سے استعمال ہو رہا ہے۔ بوریل کے مطابق اس بات پر یقین کرنے کی وجہ ہے کہ اسرائیلی افواج جان بوجھ کر صحافیوں پر حملہ کر رہی ہیں۔ اس تنازع کے دوران 130 میڈیا ورکرز پہلے ہی مارے جا چکے ہیں۔یورپی یونین کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہ رجحانات، جو غزہ میں طویل عرصے سے ہو رہے ہیں، اب دوسری جگہوں پر دہرائے جا رہے ہیں۔ جنوبی لبنان میں 30 قصبوں کو جنگی کارروائیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹارگٹڈ بم دھاکوں کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ مغربی کنارے میں آباد کار فلسطینی کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر رہے ہیں۔بوریل نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ 7 اکتوبر کو جو کچھ ہوا اس کا بدلہ لینے کے لیے غصے اور طیش میں نہ آئیں۔ یوکرین میں تنازع قواعد پر مبنی عالمی نظام کو کمزور کر رہا ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے شروع کی گئی جنگ کے نتیجے میں تو یہ عالمی نظام ایک دھاگے سے لٹکا رہ گیا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں تشدد کی لہریں پیدا ہو رہی ہیں۔مشرق وسطیٰ کے تنازعات سے یہ رجحان یورپ بھر میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔ یورپی شہروں کی گلیوں میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔