اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا مطلب حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی غزہ کی پٹی میں زیر حراست قیدیوں کی رہائی کے بغیر کوئی جنگ بندی نہیں ہو گی۔
امریکی فاکس نیوز نیٹ ورک کے مطابق انہوں نے کہا کہ “ہم غزہ پر حکمرانی یا قبضہ نہیں کرنا چاہتے۔ غزہ میں حماس کے خلاف لڑائی جاری رہے گی، البتہ اس دوران عام شہریوں کے انخلاء کا راستہ شامل ہوگا‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ہم نے جنگ کے لیے بغیر ٹائم ٹیبل کے اہداف مقرر کیے کیونکہ اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے”۔
اسرائیل کو جنگ بندی پرمجبور نہیں کر سکتے
دریں اثناء’ایکسیس‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے کہا ہے کہ اگر حماس کے قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ ہوتا ہے تو اسرائیل جنگ بندی کو بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ واشنگٹن اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ امریکی دباؤ نے اسرائیل کو غزہ میں لڑائی کی “حکمت عملی کے تبدیل ” کرنے پر راضی کیا۔
اسرائیل روزانہ چار گھنٹے کے لیے کارروائی روکنے پر رضامند
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اسرائیل نے جمعرات سے شمالی غزہ میں روزانہ چار گھنٹے کے لیے کارروائیاں روکنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ تعطل لوگوں کو دو انسانی راہداریوں کے ذریعے نکلنے کا موقع دے گا اور یہ پہلا اہم قدم ہے۔
کربی کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں اسرائیلیوں کی جانب سے بتایا گیا کہ تعطل کے دوران ان علاقوں میں کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی اور یہ عمل آج سے شروع ہو رہا ہے۔’
کربی نے مزید کہا کہ یہ تعطل، جس کا اعلان تین گھنٹے پہلے کیا جائے گا، حالیہ دنوں میں امریکی اور اسرائیلی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں سامنے آیا، جس میں امریکی صدر جو بائیڈن کی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ہونے والی بات چیت بھی شامل ہے۔