اتر پردیش کے پیلی بھیت میں منگل (9 اپریل) کو وزیر اعظم نریندر مودی کے جلسہ عام کے موقع پر کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں اترپردیش میں بی جے پی کی ’ڈبل انجن‘حکومت نے نوجوانوں کو دھوکہ دیا ہے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے یہ سوال بھی پوچھا ہے کہ نئی ملازمتیں پیدا کرنے اور پیپر لیک کے مسئلے پر وزیر اعظم مودی کا وژن کیا ہے؟
کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا ہے کہ ’’آج وزیر اعظم اترپردیش میں ہیں۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں نوجوانوں کو بی جے پی کی ’ڈبل انجن‘ حکومت نے دھوکہ ہی دھوکہ دیا ہے۔ شاید آج وزیر اعظم اپنے دکھاوٹی تقریر کے درمیان ریاست کے نوجوانوں کے ان مسائل پر بات کریں۔‘‘ جے رام رمیش نے مزید کہا ہے کہ ’’ گزشتہ سال وزیر اعلیٰ یوگی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلے 3-4 سالوں میں ریاست میں دو کروڑ نئے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔ یاد کریں، یہ وہی وعدہ ہے جو وزیر اعظم نے 2014 میں اقتدار میں آنے سے پہلے کیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا – بے روزگاری نے برسوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔‘‘
کانگریس کے لیڈر نے سوال کیا کہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے دو کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کے مطابق پچھلی دہائی میں کیا کیا؟ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ وزیر اعظم مودی کے ساتھی اب وہی وعدے کیوں کر رہے ہیں جنہیں وزیر اعظم پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ اتر پردیش اور ہندوستان کے ریکارڈ بے روزگاری کے بحران کو حل کرنے کے لیے بی جے پی کے پاس کیا وژن ہے؟
جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت کے تحت گزشتہ چند برسوں میں سرکاری عہدوں پر بھرتی کے لیے کیے گئے امتحانات کے کم از کم 43 پرچے لیک ہوئے ہیں، جس سے کم از کم دو کروڑ امیدوار متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’حال ہی میں اتر پردیش پولیس کے امتحان کے پرچے لیک ہونے کے بعد امتحان کی منسوخی کی وجہ سے 60 لاکھ درخواست دہندگان کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا تھا۔ اپنی یوتھ جسٹس گارنٹی کے تحت کانگریس پیپر لیک کو روکنے کے لیے مضبوط قانون لانے کے لیے پابند عہد ہے۔‘‘
کانگریس کے لیڈر نے پوچھا ہے کہ ’’ہمارے نوجوانوں کو پہنچنے والے نقصان کو دور کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی کا کیا وژن ہے؟ بی جے پی کی ’ڈبل انجن‘ حکومت اپنی غلطیوں کو درست کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کر رہی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو دوبارہ کبھی اس قسم کی ناانصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘