سپریم کورٹ نے ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے معاملے میں ہڑتالی ڈاکٹروں کوہدایت دی
نئی دہلی، 09 ستمبر (یو این آئی) سپریم کورٹ نے مغربی بنگال حکومت کو کولکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اور اسپتال میں مناسب حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کی ہدایت دی ہے اور احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو منگل کی شام 5 بجے تک اپنے کام پر واپس آنے کا آج حکم دیا ہے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے 9 اگست کو اس کالج کی 31 سالہ پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹر کی مبینہ عصمت دری اور قتل کے معاملے میں تحقیقات کی پیش رفت کی تفصیلات اور دیگر پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ سنایا ۔بنچ نے مغربی بنگال کے ڈاکٹروں کو، جو مبینہ عصمت دری اور قتل کے خلاف ایک ماہ سے مسلسل ہڑتال پر ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں، کو خبردار کیا ہے کہ وہ کل شام 5 بجے تک اپنی اپنی ڈیوٹی پر واپس آجائیں، بصورت دیگر ریاستی حکومت ان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ڈاکٹروں کا احتجاج ان کے فرض کی قیمت پر نہیں ہو سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دو دن کا وقت دیا ہے، ینگ ڈاکٹرز اب اپنے اپنے کام پر واپس آجائیں، ہم جانتے ہیں کہ زمینی سطح پر کیا ہو رہا ہے، پہلے کام پر واپس آئیں، ڈسٹرکٹ کلکٹر اور پولیس سپرنٹنڈنٹ سیکیورٹی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ آپ کو ابھی کام پر واپس آنا پڑے گا، لہذا کسی کو اپنے خلاف تادیبی کارروائی کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔اس وارننگ کے ساتھ بینچ نے ہڑتالی ڈاکٹروں کو یہ بھی یقین دلایا کہ اگر وہ 10 ستمبر کو شام 5 بجے یا اس سے پہلے ڈیوٹی پر حاضر ہوتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جائے گی۔عدالت عظمیٰ کے سامنے سماعت کے دوران مغربی بنگال حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے بنچ کو بتایا کہ ریاست بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مظاہرین تشدد میں ملوث ہیں۔ یہ احتجاج ریاستی حکومت سے پیشگی اجازت کے بغیر کیا جا رہا ہے۔انہوں نے بنچ کے سامنے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مظاہروں کی وجہ سے تقریباً 23 افراد کی موت ہو چکی ہے اور چھ لاکھ لوگ علاج نہیں کر ا سکے ہیں۔انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا “23 لوگوں کی موت اس لیے ہوئی کہ وہ (ڈاکٹر) کام پر نہیں تھے۔ صحت کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ چھ لاکھ لوگوں کا علاج نہیں ہو رہا ہے۔ رہائشی ڈاکٹر او پی ڈی میں نہیں آ رہے ہیں اور 1500 سے زیادہ مریضوں کی انجیوگرافی نہیں ہو پارہی ہے۔”