National

سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو صرف دو زبانیں سیکھنے کی اجازت

21views

بی جے پی نےتمل ناڈو کے سرکاری اسکولوں میں تیسری ہندوستانی زبان پڑھنے پر پابندی پرسوال اٹھایا

مدورئی، 13 مارچ (یو این آئی) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تمل ناڈو یونٹ کے صدر کے اناملائی نے جمعرات کے روز پوچھا کہ ریاستی حکومت سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو تمل اور انگریزی کے ساتھ تیسری زبان کے طور پر ہندوستانی زبانیں سیکھنے سے کیوں روک رہی ہے۔مسٹر اناملائی نے یہ بھی پوچھا کہ ریاستی حکومت قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 میں تجویز کردہ ثانوی سطح پر عالمی زبان کو بھی تیسری زبان کے طور پر کیوں روک رہی ہے۔انہوں نے تمل ناڈو کے انفارمیشن ٹکنالوجی اور ڈیجیٹل خدمات کے وزیر ڈاکٹر پلانیول تھیاگا راجن کے اس تبصرے کا جواب دینے کی کوشش کی کہ مرکزی حکومت تمل ناڈو پر تین زبانوں کا ناکام ماڈل مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔مسٹر اناملائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا “مجھے ڈی ایم کے کے وزیر کی طرف سے میرے سوال کے جواب کے بارے میں معلوم ہوا کہ ڈی ایم کے کے وزراء اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کو اسکول میں تین زبانیں سیکھنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ سرکاری اسکول کے طلبہ کو صرف دو زبانیں سیکھنے پر مجبور کرتے ہیں”۔ڈاکٹر راجن نے جواب دیا کہ ان کے بیٹوں کو ان کی اسکولنگ کے دوران دو زبانوں کا فارمولہ دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دو زبانیں کون سی ہیں۔
ان کے بیٹوں نے جو دو زبانیں سیکھیں ان میں سے پہلی انگریزی تھی اور دوسری فرانسیسی/ہسپانوی تھی۔ بی جے پی کے ریاستی صدر نے پوچھا کیا یہی تمل ناڈو حکومت کا دو لسانی فارمولہ ہے۔انہوں نے کہا، “ہم صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ تمل ناڈو حکومت ہمارے سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو ثانوی سطح پر تمل اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ایک ہندوستانی زبان اور یہاں تک کہ ایک بین الاقوامی زبان کو تیسری زبان کے طور پر سیکھنے سے کیوں روک رہی ہے؟ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے سرکاری اسکول کے طلبہ کو متعدد زبانیں سیکھنے کے مساوی مواقع ملیں۔مزید انہوں نے کہا کہ گوگل کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) سندر پچائی نے اپنے اسکول میں ہندی سمیت تین زبانوں کی تعلیم حاصل کی، جو آپ (مسٹر پلانیول تھیاگا راجن) کے دعوے کے برعکس ہے۔قبل ازیں بدھ کے روز یہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریاستی وزیر نے کہا کہ مرکزی حکومت کو ہم پر کوئی زبان مسلط کرنے کا کوئی حق یا اختیارحاصل نہیں ہے۔ ہم اسے قبول نہیں کر سکتے جب وہ لوگ جو دوسروں کو دوسری زبان نہیں سکھا سکتے وہ ہمیں تیسری زبان سیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ کنڈرگارٹن کے طلبہ کے جیسے ہیں جو پی ایچ ڈی کے طلبہ کو تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ وہ ہم سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم جیسے دو زبانوں کے کامیاب ماڈل کو ان کے ناکام تین زبانوں والے ماڈل سے بدل دیں، کیا کوئی عقل سلیم والا اس منطق کو قبول کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ تین زبانوں کا ماڈل پہلی بار 1968 میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن یہ کہیں بھی کامیاب نہیں ہوا، جب کہ تمل ناڈو جیسی ریاستوں نے صرف دو زبانوں کے ماڈل کو قبول کیا، انہوں نے مزید کہا کہ 57 سال گزرنے کے بعد بھی ملک میں کہیں بھی تین زبانوں کے ماڈل کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا جا سکا ہے۔تمل ناڈو کی مانند جن ریاستوں نے دو لسانی پالیسی اپنائی ہے، وہاں قومی معیارات میں اعلیٰ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اتر پردیش، بہار اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں دو زبانوں کی پالیسی نافذ کی جاتی تو ہمیں تین زبانوں کی پالیسی کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ بات چیت کے لیے انگریزی سیکھ چکے ہوتے۔

Follow us on Google News
Jadeed Bharat
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.