50
شہر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات، بازار بند رہے
اترکاشی، 25 اکتوبر:۔ (ایجنسی) اتراکھنڈ کے سرحدی ضلع اترکاشی میں ہنگامہ آرائی کے بعد جمعرات 24 اکتوبر سے ضلع ہیڈکوارٹر سمیت آس پاس کے تمام بازار بند ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ضلع میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔ جمعہ کے روز مسلم کمیونٹی نے مسجد میں جمعہ کی نماز بھی ادا نہیں کی۔ لوگوں نے گھروں میں ہی نماز ادا کی۔ جمعرات 24 اکتوبر کو اترکاشی میں مسجد کو غیر قانونی بتا کر ہنگامہ ہوا تھا۔ اس دوران پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا جس کی وجہ سے پولیس کو مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا۔ اس دوران متعدد پولیس اہلکاروں سمیت تقریباً 27 افراد زخمی ہوئے۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ضلع انتظامیہ نے اترکاشی شہر میں دفعہ 163 بھی نافذ کر دی ہے۔ ایک مقامی احمد نے بتایا کہ ان کی عمر تقریباً 43 سال ہے، لیکن انھوں نے ایسا ماحول پہلی بار اترکاشی ضلع میں دیکھا ہے۔ اترکاشی میں ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ پیار و بھائی چارہ سے رہتا ہے۔ کچھ باہر والوں کی وجہ سے شہر کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ، آگے کیا ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مسلمانوں نے کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اپنے گھروں میں نماز جمعہ ادا کی۔ قابل ذکر ہے کہ سنیکت سناتن دھرم رکھشک دل نے جمعرات 24 اکتوبر کو اترکاشی میں مسجد کو لے کر ایک ریلی نکالی تھی، جس کے لیے پولیس انتظامیہ سے اجازت بھی لی گئی تھی۔ پولیس انتظامیہ نے ریلی کے لیے وقت اور روٹ دونوں کا تعین کر رکھا تھا تاہم پولیس انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ریلی مقررہ روٹ پر جانے کے بجائے دوسرے روٹ پر جا رہی تھی جسے پولیس نے رکاوٹیں لگا کر روک دیا۔ اس دوران کچھ لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کے بعد پولیس کو بھی کارروائی کرنی پڑی۔ ضلع انتظامیہ نے 21 اکتوبر کو ایک پریس نوٹ جاری کر کے واضح کیا ہے کہ اترکاشی میں جس مسجد کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو رہا ہے وہ قانون کے مطابق ہے۔اُترکاشی کے ایک رہائشی اشتیاق احمد نے باراہت مسجد کی جائز حیثیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’20 مئی 1987 کو اتر پردیش مسلم وقف ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ، اور سنی وقف شیڈول میں درج، مسجد اور اس کی زمین مکمل طور پر قانونی اور جائز ہے‘‘۔