اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ میں فوری فائر بندی سے متعلق ایک قرارداد منظور کرنے میں پھر ناکام ہو گئی ہے۔ یہ قرارداد امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی، جسے روس اور چین نے ویٹو کر دیا۔نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر سے جمعہ 22 مارچ کی سہ پہر ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکہ کی طرف سے پیش کردہ اس مسودہ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ پٹی کے محاصرہ شدہ فلسطینی علاقے میں ”فوری اور دیرپا فائر بندی‘‘ کی جانا چاہیے تاکہ 2.4 ملین کی آبادی والے اس علاقے میں عام شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ کیا جا سکے اور ساتھ ہی بھوک کے مسئلے کا شکار دو ملین سے زائد فلسطینیوں کے لیےانسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی تیز رفتار ترسیل کو بھی ممکن بنایا جا سکے۔ پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں اس قرارداد پر کل ہوئی رائے شماری میں گیارہ ممالک نے اس کی حمایت کی اور ایک رکن ملک نے رائے دہی میں حصہ نہ لیا۔ کونسل کے رکن تین ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا، جن میں سے دو نے اس مسودے کو ویٹو کر دیا۔ یہ مستقل رکن ممالک روس اور چین تھے۔
روسی ویٹو کی وجہ
نیو یارک کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح نو بجے عالمی سلامتی کونسل کا جو اجلاس شروع ہوا، اس میں ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبینزیا نے کہا کہ ماسکو حکومت غزہ میں فوری فائر بندی کی حمایت تو کرتا ہے، تاہم اسے امریکی تعاون سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کے مسودے میں استعمال کردہ الفاظ سے اختلاف ہے۔
ساتھ ہی روسی سفیر نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور اقوام متحدہ میں امریکی خاتون سفیر لِنڈا ٹامس گرین فیلڈ پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اس قرارداد کے محرک ”سیاسی عوامل‘‘ کے ذریعے ”بین الاقوامی برادری کو غلط راہ پر‘‘ ڈال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں اس قرارداد پر ووٹنگ سے قبل روس کے نائب سفیر دمیتری پولیانسکی نے بھی کہا تھا کہ غزہ کی جنگ میں سیزفائر کے لیے سلامتی کونسل میں پیش کردہ کسی بھی قرارداد سے روس ”اس وقت تک مطمئن نہیں ہو گا، جب تک اس میں یہ نہ کہا گیا ہو کہ غزہ کی جنگ میں فوراﹰ فائر بندی کی جائے۔‘‘
پولیانسکی نے امریکی مسودہ قرارداد کے متن میں الفاظ کے مخصوص چناؤ کا ذکر کرتے ہوئے الزام لگایا، ”میری رائے میں تو اس طرح بین الاقوامی برادری کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ غزہ کی جنگ سے متعلق نیو یارک میں اس قرارداد پر آج ہونے والی ووٹنگ سے قبل امریکی خاتون سفیر لِنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے امید ظاہر کی تھی کہ سلامتی کونسل اس مسودے کو منظور کر لے گی اور غزہ میں فوری فائر بندی کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ ووٹنگ کا نتیجہ تاہم قرارداد کے حامی ممالک کی توقعات کے برعکس رہا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق کوئی قرارداد منظور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسا پہلے کئی بار ہو چکا ہے اور دو مرتبہ تو کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کی قراردادیں منظور بھی کر لی تھیں۔ ایسی گزشتہ دونوں قراردادوں میں تاہم ”فوری فائر بندی‘‘ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
روس اور چین نے جس طرح آج اپنی ویٹو کی طاقت کا استعمال کیا، اسی طرح ان دونوں ممالک نے امریکہ ہی کی پیش کردہ غزہ سے متعلق ایک اور قرارداد کو گزشتہ برس اکتوبر میں بھی ویٹو کر دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ تب وہ مسودہ قرارداد ”غزہ میں فوری فائر بندی کے عالمی مطالبات کا عکاس‘‘ نہیں تھا۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ، جو اس وقت اپنے چھٹے مہینے میں ہے، گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل میں اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی، جس میں ساڑھے گیارہ سو کے قریب اسرائیلی مارے گئے تھے اور جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ ڈھائی سو اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف جو زمینی اور فضائی حملے شروع کیے تھے، ان میں غزہ کی حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے تازہ بیانات کے مطابق اب تک تقریباﹰ 32 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
ان ہلاک شدگان میں بڑی اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی جبکہ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں اب تک تقریباﹰ 74 ہزار افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ ان میں بھی بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ یہ اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ غزہ پٹی کا زیادہ تر حصہ اب تک تباہ ہو چکا ہے اور شمالی اور وسطی غزہ پٹی کی شہری آبادی نقل مکانی کر کے جنوبی غزہ پٹی میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکی ہے۔
ان میں سے کئی لاکھ فلسطینی شہری مصر کے ساتھ سرحد کے قریب واقع شہر رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں اسرائیلی حکومت عنقریب ہی حماس کے خلاف اپنا ایک بڑا زمینی فوجی آپریشن شروع کرنا چاہتی ہے۔ برسلز میں ان دنوں یورپی یونین کی کونسل کا جو سربراہی اجلاس جاری ہے، اس میں یونین کے رکن تمام 27 ممالک کے اعلیٰ رہنما شریک ہیں۔ ان ممالک میں سے اب کم ازکم چار کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کو تسلیم کرنے کے عمل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
برسلز میں اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے جمعے کے روز صحافیوں کو بتایا کہ میڈرڈ حکومت کا آئرلینڈ، مالٹا اور سلووینیہ کے ساتھ یہ اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ یہ ممالک مل کر فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے اولین اقدامات کریں گے۔ ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے کہا کہ ان کے ملک کی طرف سے فلسطینیوں کی اپنی آزاد اور خود مختار ریاست کو تسلیم کرنے کا عمل اسپین میں چار سال کی اس موجودہ پارلیمانی مدت کے دوران ہی مکمل کیا جا سکتا ہے، جو گزشتہ برس شروع ہوئی تھی۔