اتر پردیش میں جرائم پر قابو کو لے کر چاہے جتنے بھی دعوے کیے جاتے ہوں، لیکن زمینی حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔ تازہ مثال اتر پردیش کے مراد آباد واقع ایک مسجد میں امامت کرنے والے محمد اکرم کا قتل ہے جس نے علاقے میں دہشت کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ مراد آباد واقع کٹگھر کے بھینیسا گاؤں میں مولانا اکرم کا گولی مار کر گزشتہ شب قتل کر دیا گیا۔ اس کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی ایک ٹیم جائے وقوع پر پہنچی اور لاش کو اپنے قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔
مولانا اکرم بھینسیا گاؤں کی بڑی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ وہ رامپور کے رہنے والے تھے اور گزشتہ 15 سالوں سے بڑی مسجد میں امامت کی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ بھینیسا میں ہی انھوں نے گھر بھی بنا لیا تھا اور اپنی بیوی و 6 بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ پیر کی شب ان کو جرائم پیشوں نے سینے میں گولی مار دی اور فرار ہو گئے۔
مولانا اکرم کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دیر رات انھیں کسی کا فون آیا تھا۔ انھیں کسی نے ملنے کے لیے بلایا تھا اور وہ اپنے گھر سے فون کرنے والے سے ملاقات کے لیے نکل گئے تھے۔ پھر ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ پولیس کو گاؤں کے ہی کھنڈر سے مولانا کی لاش برآمد ہوئی۔ پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ قتل سے متعلق ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ انھوں نے جلد ہی جرائم پیشوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امام کے قتل کی خبر جیسے ہی پھیلی، پورا گاؤں کھنڈر کے پاس اکٹھا ہو گیا۔ فوراً ہی پولیس کو اس سلسلے میں جانکاری دی گئی۔ ایس پی سمیت پولیس افسران بھی فوراً موقع پر پہنچے۔ پولیس کو جائے حادثہ سے کچھ دوری پر ایک طمنچہ ملا ہے جسے قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ اس حادثہ سے متعلق پولیس نے مہلوک کی بیوی آمنہ سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا اکرم کا گزشتہ 15 سال میں کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا، وہ کسی سے رنجش نہیں رکھتے تھے۔