National

امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی قیادت میں اوڈیشہ کے وفد کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقات

45views

وقف ترمیمی بل کو یکسر مسترد کرنے کا مطالبہ

نئی دہلی، 28؍اکتوبر 2024 (راست) وقف ترمیمی بل 2024 پرآج اپنا مؤقف پیش کرنے کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں اڈیشہ کے وفد کو موقع دیا۔ یہ میٹنگ پارلیمان کی میٹنگ ہال میں منعقد ہوئی۔وفد کی قیادت حضرت امیر شریعت نے کیا۔ وفد میں قاضی محمد صبغت اللہ داؤد قاسمی صاحب قاضی شریعت امارت شرعیہ کٹک، جناب کمال فاروقی صاحب ایگزیکٹو ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مفتی محمد ابرار صاحب سکریٹری جمیعت علماء کٹک، مفتی سعید انور سالم صاحب رکن ہیومن رائٹ کاؤنسل، مفتی محمد ثاقب صاحب جماعت اسلامی کٹک، محمد مظہر ارشد صاحب قومی صدر انڈین ہیومن رائٹس، جناب حامد ولی فہد رحمانی صاحب رکن مشاورتی کمیٹی امارت شرعیہ، مولانا عبدالسبحان قاسمی صاحب رکن مشاورتی کمیٹی امارت شرعیہ اور حافظ محمد احتشام عالم رحمانی صاحب رکن مشاورتی کمیٹی امارت شرعیہ شریک تھے۔میٹنگ میں جے پی سی کے چیئرمین اور اراکین موجود تھے۔ سب سے پہلے حضرت امیر شریعت نے وفد میں موجود تمام لوگوں کا تعارف کروایا۔ اس کے بعد انہوں نے تفصیل کے ساتھ وقف کی آئینی اور شرعی حیثیت پر روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ یہ بل سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں، عرف اور آئین میں دی گئی مذہبی امور کی آزادی کے خلاف اور دستور کی روح سے متصادم ہے انہوں نے مثال دیتے ہوئے کئی دفعات کا ذکر کیا اور ان کا حوالہ دے کر جے پی سی کو سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ،ساتھ ہی ساتھ ملک کے مسلمان اور امن پسند شہریوں کی بے چینی سے بھی جے پی سی کو باخبر کیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 نہایت ہی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے اور اس سے ملک میں بڑی بے چینی پیدا ہوگئی ہے لہذا جے پی سے اس بل کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی تجویز پیش کرے تاکہ بےچینی ختم ہو اور دستور پر اعتماد باقی رہے۔ جس پر جے پی سی کی طرف سے کئی سوالات کئے گئے جن کا وفد کے قائد امیر شریعت اور وفد کے شرکاء نے اطمینان بخش جواب دیا ، اور پھر امیر شریعت نے بھی جے پی سی سے متعدد بنیادی و اصولی سوالات کئے اور متعدد خدشات کا وضاحت کے ساتھ اظہار کیا، جس پر جے پی سی کی طرف سے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی اور خدشات کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت امیر شریعت نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے مجوزہ ترامیم کے ممکن منفی اثرات کا جائزہ پیش کیا اور فرمایا کہ اس کے منفی اثرات نہ صرف مسلم برادری بلکہ ملک کی دیگر مذہبی برادریوں کے مذہبی، ثقافتی املاک اور حقوق پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر آئین کی دفعات 14، 15، 25، 26 اور 300 کی خلاف ورزیوں، عدالتی اصولوں کے نظر انداز کرنے، اور مذہبی خود مختاری کے خاتمے پر بات کی گئی۔ سپریم کورٹ کے مشہور فیصلے جیسے شیرور من كيس (1954) يونين آف انڈیا بمقابلہ از گاندھی (2010) اور ایل چندرا کمار بمقابلہ یونین آف انڈیا (1997)، نے مذہبی وقفوں کے تحفظ کے حوالے سے مضبوط اصول متعین کیے ہیں، جو ان ترامیم کے باعث خطرے میں ہیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ ترامیم آئندہ کے لئے خطرناک نظیر قائم کر سکتی ہے جس کا نقصان دوسری مذہبی برادریوں کو بھی اٹھانا پڑے گا، اور ملک کا سیکولر ڈھانچہ بکھر کر رہ جائے گا۔ان تشویشات کی بنیاد پر بھی ہم لوگ جے پی سی سے ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ جے پی سی آئین و قانون ، اور کثرت میں وحدت جیسے رواداری کو فروغ دینے والے نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرے اور مجوزہ ترامیم کو مسترد کرنے کی تجویز پیش کرے۔ تاکہ وقف املاک اور مختلف مذاہب کے انڈومنٹس کی خود مختاری محفوظ رہے اور آئینی حقوق کی پامالی نہ ہو۔

Follow us on Google News
Jadeed Bharat
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.