چیف الیکشن کمشنر تقرری معاملہ: سپریم کورٹ نے نئے قانون پر روک لگانے سے کیا انکار، مرکز کو نوٹس جاری
چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرری سے متعلق نئے قانون کو چیلنج دینے والی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے اس دوران واضح الفاظ میں نئے قانون پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ جسٹس سنجیو کھنہ کی دو رکنی بنچ نے کہا کہ اس قانون پر فوری روک نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ بغیر کاپی سروِنگ (فریق مخالف کو سنے) قانون پر روک لگانے کا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ کانگریس لیڈر جیہ ٹھاکر نے مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے نئے قانون کو لے کر سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ لایا گیا یہ قانون غیر آئینی ہے۔ اس عرضی میں پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کردہ ترمیم پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ نیا قانون چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری کو لے کر بنایا گیا ہے۔
اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے نئے قانون پر روک لگانے سے انکار ضرور کر دیا، لیکن ساتھ ہی کہا کہ نئے قانون کا عدالتی تجزیہ کیا جائے گا۔ عدالت نے نئے قانون پر روک لگانے سے متعلق عرضی پر مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی جاری کیا ہے اور جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔۔ عدالت عظمیٰ میں اس معاملے پر آئندہ سماعت اپریل میں ہوگی۔
یمن کے 3 شہروں میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکہ-برطانیہ کے فضائی حملے، وائٹ ہاؤس کے قریب احتجاج
اس سے قبل سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری کے پینل میں وزیر اعظم، لوک سبھا میں حزب مخالف لیڈر اور چیف جسٹس شامل ہوں گے، جب تک کہ کوئی قانون نہ لایا جائے۔ لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد مرکزی حکومت نے نیا قانون لا کر عدالت کے اس فیصلے کو پلٹ دیا۔ ترمیم شدہ قانون کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا کو تقرری والی کمیٹی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کمیٹی میں وزیر اعظم، لوک سبھا میں حزب مخالف لیڈر اور وزیر اعظم کے ذریعہ نامزد ایک کابینہ وزیر کو شامل کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔