مسلم لیگ نون نے انتخابی مہم میں چوتھی بار نواز شریف وزیراعظم کا نعرہ لگانے کے بعد اچانک پارٹی کے صدر شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کر دیا ہے، جس پر ملک کے کئی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے۔کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ کیونکہ انتخابات کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان ہے اس لیے نواز شریف کو اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی کے لیے خود کو اگے کریں جب کہ دوسرے حلقے جی ایچ کیو کی طرف سے شہباز شریف کی قبولیت کو وجہ بتاتے ہیں۔
وزارت عظمیٰ کے حوالے سے نواز شریف کے نام نہ آنے پرکچھ حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ غالباﹰ نواز شریف سیاست سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔ اس تاثر کو رد کر نے کے لیے مریم نواز شریف کو ایک ٹویٹ کے ذریعے اس بحث میں کودنا پڑا۔ اپنی ٹویٹ میں مریم نواز شریف نے لکھا، ”وزارت عظمی کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو اس میں کوئی سچائی نہیں۔‘‘
تابعداری کا عنصر
تاہم ان کی وضاحت کے باوجود بھی ملک کے کئی حلقوں میں اس معاملے پر بحث جاری ہے۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو انتہائی تابعدار وزیراعظم چاہیے، اس لیے اس کے لیے شہباز شریف موضوع ترین ہیں۔ جمیعت علمائے اسلام کے رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتی جو انہی کا کھائیں اور پھر انہی پر غرائیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی نرسری سے ہی نکلے تھے اور انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں، جو اسٹیبلشمنٹ کو اچھی نہیں لگی ان کے مقابلے میں شہباز شریف بہت تابعدار ہیں، اس لیے اسٹیبلشمنٹ ان کو رکھنا چاہتی ہے۔‘‘
حافظ حسین احمد کے مطابق شہباز شریف کو معلوم تھا کہ وہ وزیراعظم بنیں گے۔ ”اسی لیے وہ ڈگیوں میں چھپ چھپ کر جاتے تھے اور رات کو ملاقاتیں کرتے تھے اور نواز شریف کو واپس لانے میں بھی انہی کا ہاتھ ہے۔‘‘ تجزیہ نگار جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ کیونکہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے اس لیے نواز شریف کو شہباز شریف نے استعمال کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یقینا شہباز شریف کی تابعداری کو پسند کیا جاتا ہے اسی لیے نواز شریف کو استعمال کر کے ان کو وزیراعظم بنایا گیا ہے۔‘‘
نہ مقبولیت نہ قبولیت
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نہ مقبولیت ہے نہ قبولیت ہے تو وہ وزیراعظم کیسے بن سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” نواز شریف کے نام پر مقتدر حلقوں کی طرف سے بہت پہلے سے ہی کراس لگ گیا تھا اور ان کو جو بھی ریلیف ملی ہے وہ شہباز شریف کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے ملی ہے۔‘‘ فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق جب عمران خان مقبول ہونے کے باوجود وزیراعظم نہیں بن سکتے کیونکہ کچھ حلقے نہیں چاہتے۔ ” تو نواز شریف کیسے بن سکتے ہیں۔‘‘
نواز شریف میں اخلاقی ہمت نہیں
کچھ مبصرین کا خیال ہے کیونکہ انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے اس لیے نواز شریف میں اتنی اخلاقی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کے لیے آگے آئیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے نہ صرف انتخابات کی شفافیت پہ سوالیہ نشان ہیں بلکہ خود ان کی اپنی نشست پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”نواز شریف اور خواجہ آصف سمیت کئی رہنماؤں کی نشستوں پر جب دوبارہ سے گنتی ہوگی یا معاملہ عدالتوں میں جائے تو نواز شریف کو بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
حبیب اکرم کے مطابق نواز شریف کو اس بات کا علم ہے کہ برطانیہ، امریکہ اور اقوام متحدہ پہلے ہی ان انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھا چکے ہیں۔ ”لہذا ان کا وزیراعظم بننا باعث شرمندگی ہو سکتا ہے اسی لیے انہوں نے اپنے آپ کو نامزد نہیں کروایا۔‘‘ سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس بات سے آگاہ ہیں کہ انہیں واضح عوامی مینڈیٹ نہیں ملا ہے۔ ”ان انتخابات میں بھرپور دھاندلی ہوئی ہے اور بدقسمتی سے سیاست دانوں نے جرنیلوں کو اپنے کاندھے دے کر پاکستان کی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخابات پر مہر ثبت کر دی ہے۔‘‘
عاصم اور نواز کے تعلقات اچھے ہیں
تاہم تجزیہ نگار نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے تمام اسٹیک ہولڈر مطمئن ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جنرل عاصم منیر اور نواز شریف کے اچھے تعلقات ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ نواز شریف نے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اگر انہیں اکثریت ملے گی تو وہ وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے بصورت دیگر شہباز شریف مخلوط حکومت کے لیے امیدوار ہوں گے۔‘‘
نجم سیٹھی کے مطابق موجودہ انتظام نواز شریف کے لیے بہتر ہے۔ ”ان کی سیاسی وارث مریم نواز پنجاب کی وزیراعلی بن گئی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی خوش ہے کیونکہ وہ شہباز کے ساتھ کام کرے گی جو نواز شریف کے برعکس اپنے رویے میں زیادہ لچک رکھتے ہیں۔‘‘
انتخابات پر کمیشن بنایا جائے
کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو نوازشہباز کی وزارت عظمیٰ کی بحث تو دور، پورے انتخابات کو ہی رد کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جماعت اسلامی کی رہنما ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت تو پورے انتخابات کی شفافیت پر ہی سوال اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” جماعت اسلامی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف 16 فروری کو ایک بڑا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ کمیشن بنایا جائے اور جماعت اسلامی انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی کے سارے ثبوت دے گی۔‘‘