یہ وقت گوشہ نشینی کا نہیں بلکہ میدان میں نکل کر وقف بل کے خلاف جہد مسلسل کا ہے: انیس الرحمن قاسمی
ضلع روہتاس کے ناصر ی گنج میں آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیر اہتمام وقف بل کے خلاف اجلاس عام
ناصری گنج، 20 ستمبر (راست) آل انڈیا ملی کونسل کی مجوزہ وقف ترمیمی بل ۴۲۰۲کے خلاف تحریک پورے بہار میں جاری ہے، اسی ضمن میں مورخہ 19ستمبر کو بعد نماز عشاء ملی کونسل کے ذمہ داران حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل کی قیادت میں ناصری گنج،ضلع رہتاس پہنچے۔ اس موقر وفد میں صدر محترم کے علاوہ حضرت مولانا مفتی محمد نافع عارفی کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار اورجناب نجم الحسن نجمی رکن عاملہ آل انڈیا ملی کونسل بھی موجود تھے ناصری گنج کی جامع مسجدمیں عشاء کی نماز کے بعداجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کہا کہ یہ وقت گوشہ نشینی کا نہیں ہے، بلکہ ہر ذمہ دار اور با شعور فرد کی دینی اور ملی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بساط بھر جد و جہد کیلئے میدان عمل میں آئے۔یہ وقف ترمیمی بل جو حکومت لے کر آئی ہے وہ نہ صرف مسلمانوں کے حق میں خطرناک ہے بلکہ ملک کے دستور کے منافی بھی اور ملک کی جمہوریت کی حفاظت کے لیے ہر ہندوستانی کو اس بل کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی۔ جمہوری ملک میں احتجاج نہایت ضروری چیز ہے۔ ہمیں کسانوں سے سبق لینا چاہئے کہ ان کے لگاتار اور مسلسل احتجاج نے حکومت ہند کو مجبور کیا اور اس نے تین ظالمانہ قانون واپس لیے، لیکن کسان اس پر مطمئن نہیں ہوئے اور وہ اپنے حق میں قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے آج بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں ہر ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینا چاہئے، اسی کی تعلیم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ نے دی ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ نازک حالات میں ہمیں جمہوری طریقوں کو عمل میں لاتے ہوئے احتجاج کے ساتھ ساتھ دعا ء اور اللہ کے سامنے گریہ زاری کا اہتمام بھی کرنا چاہئے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہیں گے تو یہ مصیبت ہم سے ٹلے گی، ایسے وقت میں اللہ کی طرف رجوع بہت ضروری ہے، ہر شخص کو استغفار کا اہتمام کرنا چاہئے اور کثرت سے درود شریف پڑھنا چاہئے۔
حضرت مولانا مفتی نافع عارفی صاحب نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے تو اس کو بزور قوت روکے اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے اس کے خلاف آواز بلند کرے اور اگر وہ بھی نہیں کر سکتا تو کم سے دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمترین درجہ ہے، مجوزہ وقف بل ایک ظالمانہ قانون سازی کی کوشش ہے اور یہ کھلا ہوا ظلم ہے، اس لیے اس کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے، جو شخص جو کر سکتا ہے وہ کرے، جو بول سکتا ہے بولے، جو لکھ سکتا ہے لکھے اور جو پارلیامنٹ میں اس کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے وہ پارلیامنٹ میں آواز اٹھائے، یقین جانئے کہ اللہ تعالیٰ کل قیامت کے دن ہم سے اس سلسلہ میں سوال کریں گے، اس لیے اپنی استطاعت کے بقدر کوشش ہمار ے لیے لازم ہے۔ انہوں نے 1995ء کے وقف ایکٹ اور مجوزہ وقف بل 2024کے متعدد شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل چونکہ ہمارے بنیادی حقوق کو چھیننے کی کوشش ہے اس لیے ہم اس کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ جناب نجم الحسن نجمی صاحب نے کہا کہ حکومت سے جو ہمارے مطالبات ہیں وہ تو اپنی جگہ ہیں کہ وہ بل کو واپس لے، لیکن ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ ہم اپنے اوقاف کی املاک اور اسلامی شعائر کی حفاظت کریں۔ اگر ہم میں سے ہی متعدد لوگ اوقاف کے سوداگر بن جائیں گے تو حکومت کو تو ہمارے خلاف قانون سازی کا موقع ملے گا ہی، اس لیے اپنی اصلاح بھی ضروری ہے۔ اجلا س کا آغاز مدرسہ معین الغرباء کے طالب علم عطاء اللہ بھاگل پوری کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور نعت نبی کا نذرانہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسی مدرسہ کے دوسرے طالب علم مشفق احمد نے پیش کیا۔ مدرسہ معین الغرباء کے مہتمم مولانا مفتی ظہیر الحسن صاحب نے اجلاس کی نظامت کی۔ اجلاس میں علاقہ کے با اثر سماجی و سیاسی افراد کے علاوہ علماء اور دانشوران نے شرکت کی۔ آخر میں صدر اجلاس کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔