اطلاعات کے مطابق ناوالنی کی آخری رسومات اور تدفین میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ناقد الیکسی ناوالنی کی وفات کے تقریباً دو ہفتوں بعد کل بروز جمعہ ان کی آخری رسومات ادا کر کہ ان کو دفنا دیا گیا۔
جیل میں قید 47 سالہ ناوالنی کی موت 16 فروری کو ہوئی تھی۔ لیکن روسی حکام نے ان کی میت ان کی موت کے کئی دن اور بارہا مطالبہ کرنے کے بعد ان کی والدہ کے حوالے کی، جنہوں نے اپنی بیٹے کی پوشیدہ طور پر تدفین کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ناوالنی کی ٹیم نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ناوالنی کی تدفین کے لیے جگہ کی تلاش کے دوران انہیں روسی حکام کی جانب سے مشکلات کا سامنا رہا۔
بالآخر آج ناوالنی کی میت کو تدفین کے لیے روسی دارالحکومت ماسکو لایا گیا، جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ اس دوران ان کے حمایتیوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ ناوالنی کی تدفین اور آخری رسومات میں شرکت کرنے والوں کو پولیس کریک ڈاؤن کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔
آخری رسومات اور تدفین
آخری رسومات کے لیے جب ناوالنی کی میت کو ایک تابوت میں ماسکو کے ‘آئیکون آف دی مدر آف گاڈ’ چرچ کے اندر لے جایا جا رہا تھا تو چرچ کے باہر موجود کچھ افراد “ناوالنی! ناوالنی!” کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ چرچ میں آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد جب ناوالنی کی میت کو دوبارہ باہر لایا گیا، تب بھی باہر موجود مجمعے نے ان کے اعزاز میں تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔ اس سب کے بعد ناوالنی کی میت کو تدفین کے لیے ماسکو کے بریسو قبرستان لے جایا گیا۔
حکام کی جانب سے کارروائیوں کے خدشات کے باجود ناوالنی کی تدفین اور آخری رسومات میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ اس حوالے سے روسی حکومت نے ایک انتباہ جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا ناوالنی کی تدفین کے دوران مظاہروں اور احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
روس کے سرکاری خبر رساں ادارے ٹاس کے مطابق روسی حکومت کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے بھی ایک بیان میں کہا تھا، “ایسے اجتماع جن کی اجازت نہ دی گئی ہو قانون کی خلاف ورزی ہوں گے اور اس میں شرکت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔”
دوسری جانب ناوالنی کی بیوہ یولیا ناوالنی نے لوگوں سے گزارش کی تھی کے وہ ان کے شوہر کی تدفین میں شریک ہوں۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ناوالنی کی آخری رسومات کے دوران ماسکو کے ‘آئکون آف دی مدر آف گاڈ’ چرچ کے قریب ایک ہزار سے زائد افراد جمع تھے۔