جی ڈی اے، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا۔ انتظامیہ نے صوبائی اسمبلی سے ملحقہ ریڈ زون میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی۔سندھ کی صوبائی اسمبلی کے نومنتخب ارکان نے آج ہفتے کے روز حلف اٹھا لیا۔ اس دوران اسمبلی کے باہر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا۔
پولیس نے سندھ اسمبلی کے قریب سیاسی جماعتوں کے احتجاجی مظاہرے پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے کارکنان کو منتشرکردیا۔ اس دوران خواتین سمیت درجنوں کارکنان کوحراست میں بھی لیا گیا۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف)کے رہنما راشد سومرو کی قیادت میں اندرون سندھ سےکراچی آنے والے احتجاجی قافلے کو شہر سے باہر روک لیا گیا۔
اس پر قافلے میں شامل مظاہرین نے سپرہائی وے ٹول پلازہ پر دھرنا دیا۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکرٹری جنرل راشد محمودسومرو نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا ہے جس کے خلاف ہم پرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔پولیس نے ہمیں بغیر کسی نوٹس اور آرڈرکے خلاف قانون روکاہوا ہے۔‘‘ راشد سومروکا کہناتھا کہ پرامن احتجاج ان کا حق ہے عدالت پولیس کے اس غیرقانونی اقدام کا نوٹس لے۔
ریڈ زون میں دفعہ 144 کا نفاذ
انتظامیہ کی جانب سے سندھ اسمبلی میں نو منتخب ارکان کی تقریب حلف برداری کے باعث سکیورٹی کے سخت انتظامات کیےگئے تھے۔سندھ اسمبلی اور اطراف کے علاقے ریڈ زون میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ سندھ اسمبلی آنے والے راستوں کو کنٹینر کھڑے کر کے بند کردیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ شہر میں کئی مقامات پر راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک کو جزوی طور پر معطل رکھا گیا۔ تاہم انتظامیہ کا یہ اقدام بھی احتجاج روکنے میں ناکام رہا۔ سڑکوں پر رکاوٹوں اور ٹریفک جام کی وجہ سے عام شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا اٹھانا پڑا۔
نگران وزیرداخلہ سندھ کا مظاہرین کو انتباہ
نگران صوبائی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی شر انگیزی اور لاقانونیت کا مظاہرہ کرنے والوں کےخلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ امن وامان کے قیام کے لیے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون یقینی بنائیں۔
اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی نامزدگی
سندھ اسمبلی کے 168 رکنی ایوان میں آج 147 اراکین نے حلف اٹھایا۔ خیال رہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 114 جبکہ ایم کیو ایم کے 36 اراکین ہیں۔ جی ڈی اے، جمعیت علمائے اسلام (ف)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے نومنتخب اراکین نے اجتجاجاﹰ اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
اگلے مرحلے میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔ ان دونوں عہدوں کے لیے انتخابی عمل کل بروز اتوار صبح گیارہ بجے ہو گا۔ پی پی پی نے سپیکر کے لیے اویس شاہ اور ڈپٹی سپیکر کے لیے نوید انتھونی کو نامزد کر رکھا ہے۔
پیپلزپارٹی پر تنقید
پیپلزپارٹی کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے لیے مسلسل تیسری مرتبہ مراد علی شاہ کی نامزدگی پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ناقص حکومتی کارکردگی کے باجود ایک ہی شخص کو مسلسل تین مرتبہ وزیر اعلیٰ بنانا ایک غیر مقبول فیصلہ ہے اور یہ کہ کیا پیپلزپارٹی کی قیادت کے نزدیک سندھ کی وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے اور کوئی موزوں شخصیت نہیں؟
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو نے اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کے زریعے عوام کا وقت ضائع نہ کریں۔ سندھ اسمبلی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہان تھا کہ ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں گی۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ میں احتجاج کا یہ سلسلہ جلد تھمنے والا نہیں اوراپوزیشن جماعتیں آئندہ چند ہفتوں میں اپنی موجودہ احتجاجی تحریک میں مزید شدت لاسکتی ہیں۔