پوپ فرانسس نے ایسٹر سنڈے کے خطاب کے دوران غزہ میں فوری جنگ بندی اور تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائیوں میں کم از کم 75 فلسطینی مارے گئے ہیں۔ایسٹر کا دن مسیحی مذہب میں اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے اور اس مرتبہ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے اپنے خطاب کے دوران جنگوں سے پیدا ہونے والے مصائب پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ 87 سالہ پوپ فرانسس حالیہ کچھ عرصے سے بیمار ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بار بار اپنی عوامی تقاریر کو محدود اور مصروفیات کو منسوخ کرنا پڑا، جیسا کہ انہوں نے گڈ فرائیڈے پر کیا تھا۔
‘یہ سب اموات کیوں؟‘
پوپ فرانسس بارہا غزہ جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی پر افسوس کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے اتوار کے روز بھی جنگ بندی کے اپنے مطالبے کی تجدید کی۔ ان کا کہنا تھا، ”میں ایک مرتبہ پھر اپیل کرتا ہوں کہ غزہ تک انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ میں ایک بار پھر گزشتہ سات اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے افراد کی فوری رہائی اور غزہ پٹی میں فوری جنگ بندی کے لیے اپیل کرتا ہوں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم بچوں کی آنکھوں میں مزید کتنی تکلیفیں دیکھیں گے، ان جنگی علاقوں میں بچے مسکرانا بھول گئے ہیں۔ ان آنکھوں کے ساتھ بچے ہم سے پوچھتے ہیں، کیوں؟ یہ سب اموات کیوں؟ یہ سب تباہی کیوں؟ جنگ ہمیشہ سے ایک فضول چیز اور شکست رہی ہے۔‘‘
فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں روز بروز اضافہ
مصر کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق اتوار کو قاہرہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع ہو رہے ہیں لیکن غزہ کے علاقوں پر اسرائیل کی بمباری جاری ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق محصور فلسطینی علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے جبکہ متعدد ہسپتالوں کے اردگرد بھی ہونے والی لڑائی میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے اتوار کو بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائیوں میں کم از کم 75 فلسطینی مارے گئے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں کم از کم 32,782 فلسطینی ہلاک جبکہ 75,298 زخمی ہو چکے ہیں۔ موجودہ جنگ کا آغاز حماس کے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر کیے گئے حملوں کے بعد سے ہوا تھا، ان حملوں میں اسرائیل میں تقریباً 1,160 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
غزہ کے لیے امداد، تین بحری جہاز روانہ
قبرص کے سرکاری نمائندوں نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ ایک مال بردار اور دو چھوٹے بحری جہاز قبرص سے سینکڑوں ٹن امداد لے کر غزہ پٹی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ قبرص کے ریڈیو نے اطلاع دی ہے کہ ان بحری جہازوں کی پیر کی سہ پہر تک جنگی زون کے ساحل پر پہنچنے کی توقع ہے۔
تاہم ان بحری جہازوں سے امدادی سامان اتارنے میں مشکلات پیش آئیں گی کیوں کہ غزہ کے ساحل پر کوئی مناسب بندرگاہ نہیں ہے۔ قبرص کی حکومت وسط اپریل تک غزہ پٹی کے ساحل پر ایک عارضی بندرگاہ کی تکمیل کا انتظار کر رہی ہے، جو امریکی حکومت تیار کر رہی ہے۔ یہ امدادی جہاز ‘اوپن آرمز‘ نامی غیرسرکاری تنظیم کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔
دوسری جانب غزہ کے محصور علاقوں میں کھانے پینے کا سامان ہوائی جہازوں کے ذریعے نیچے پھینکا جا رہا ہے۔ ایسی امدادی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک سامان جمع کرنے والے درجنوں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق شمالی غزہ کے فلسطینی قحط کے خطرے سے دوچار ہیں اور انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امداد کی ضرورت ہے۔
نتین یاہو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
ہفتے کے روز ہزاروں اسرائیلیوں نے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کی دائیں بازو کی مذہبی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق تل ابیب میں مظاہرین نے ملک میں فوری نئے انتخابات کے ساتھ ساتھ مغوی اسرائیلی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ یروشلم سمیت دیگر اسرائیلی شہروں میں بھی ایسے ہی احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔
تل ابیب میں مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس کے مطابق 16 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یروشلم مں سینکڑوں مظاہرین نے نیتن یاہو کی سرکاری رہائش گاہ کے قریب ایک رکاوٹ توڑ دی۔ نیتن یاہو حکومت کے مخالفین اتوار سے یروشلم میں بڑے مظاہروں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جو کئی دنوں تک جاری رہنے کی توقع ہے۔