International

ہر معاملے پر اپنی آواز اٹھانے کا آپشن نہیں ہے

19views

فلسطینیوں کے حقوق کی بات ہو تو امریکی یونیورسٹیاں حق آزادی کو دباتی ہیں؛ ایف ون ویزا اسٹوڈنٹس

واشنگٹن ڈی سی-08 اکتو بر (ایجنسی) رواں برس اپریل کے بعد کئی امریکی یونیورسٹیوں میں غزہ جنگ بندی اور اسرائیل سے سرمایہ ہٹانے کے مطالبات کے لیے مظاہرے کیے گئے تھے۔ اس احتجاج کے دوران کئی یونیورسٹیوں میں طلبا کے پولیس کے درمیان افراتفری کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے اور پولیس کی جانب سے 31 سو کے قریب طلبا کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں ملکی اور غیرملکی دونوں شامل تھے۔اس میں امیگرنٹ ویزا، ایف ون ویزا پر آنے والے کچھ طالبعلموں کو ڈی پورٹ ہو جانے کا مسئلہ بھی درپیش ہو سکتا ہے۔اس ویزا پر امریکہ آئے ہوئے چند طلبا نے وائس آف امریکہ سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں یہاں پہلی آئینی ترمیم کے تحت آزادی اظہار کا حق محسوس نہیں ہوا، خصوصاً فلسطینیوں کے حق کے لیے بات کرنے کے معاملے میں۔امریکہ کی پہلی آئینی ترمیم اظہار کی آزادی کے حق کی ضمانت دیتی ہے، لیکن ان طلبا کے مطابق جب بات فلسطین، اور فلسطینیوں کے حقوق کی آتی ہے تو انہیں لگتا ہے کہ یہاں کی یونی ورسٹیاں حق آزادی کو دباتی ہیں۔ امریکہ میں ایف ون ویزا فل ٹائم تارکین وطن طلبا کو دیا جاتا ہے اور یہ یونیورسٹی داخلے سے مشروط ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کی معطلی کی صورت میں متعلقہ طالب علم کو ملک سے ڈی پورٹیشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔واشنگٹن ڈی سی میں ایک یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے، جن کا تعلق بھارت سے ہے، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کچھ ہی عرصہ قبل بھارت سے امریکہ پڑھنے کے لیے آئی ہیں اور انہیں یہاں آ کر محسوس ہوا ہے کہ ان کے پاس یہ آپشن نہیں ہے کہ وہ ہر معاملے پر اپنی آواز اٹھا سکیں۔ انہوں نے اس مسئلے کی حساس نوعیت کی وجہ سے اپنا نام نہ بتانے کی درخواست کی ہے۔اس سوال پر کہ وہ کون سے معاملات ہیں جن پر وہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اظہار نہیں کر سکتیں، ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو فلسطین، اور فلسطینیوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ ’’میں یہاں پر کچھ عرصہ پہلے ہی آئی اور تب سے اس مسئلے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔‘‘ بقول ان کے ’’مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے ہر بات پر بولنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے۔‘‘ انہوں نے امریکہ کے نظام تعلیم اور یونیورسٹیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ انہی معاملات پر پی ایچ ڈی تھیسز لکھتے ہیں اور انہی یونیورسٹیوں میں یہ تھسز داخل کروائے جاتے ہیں۔ لیکن جب ان معاملات پر عمل درآمد کرتے ہوئے آواز اٹھائی جاتی ہے، تو یہ یونیورسٹیاں سب سے پہلے آزادی اظہار پر ہی وار کرتی ہیں۔ ’’یوں محسوس ہوتا ہے ہمارا حق اظہار یہاں بھی روکا جا رہا ہے، اور جس ملک سے ہم آئے ہیں، وہاں بھی اسے روکا جا رہا ہے۔‘‘نیویارک کی ایک یونیورسٹی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ گزشتہ برس امریکہ میں رہتے ہوئے وہ ملک کی پہلی آئینی ترمیم کے تحت اپنے حق اظہار کو استعمال کر سکتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ امریکہ میں رہتے ہوئے اپنے شعوری حق کو استعمال کرتیں، تو ان کے مطابق انہیں خدشہ تھا کی یونیورسٹی انہیں معطل کر دیتی۔اس اسٹوری کیلئے اس سے قبل بھی وائس آف امریکہ نے متعلقہ طالبہ سے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے امریکہ میں رہتے ہوئے اس پر بات کرنے سے انکار کیا تھا۔ اب وہ بیرون ملک ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یونی ورسٹی ایسے تمام طلبا کو نکال رہی تھی جو فلسطینوں کے ساتھ یک جہتی میں لگائے گئے انکیمپمنٹ، مظاہروں، اور جس پر بھی طلبا کی جانب سے اینٹی سیمائٹک ہونے کا الزام لگا تھا۔

Follow us on Google News
Jadeed Bharat
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.