پاکستانی حکام کے مطابق جمعرات دو نومبر سے وہ ایسے کسی بھی شخص کو پکڑ کر ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیں گے، جو پاکستان میں قانونی دستاویزات کے بغیر مقیم ہے۔ خیال رہے کہ ایسے افراد میں لاکھوں افغان باشندے بھی شامل ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں رہتے آئے ہیں۔
افغانستان کی سرحد سے متصل شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ایک سینیئر عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تقریباﹰ ایک لاکھ چار ہزار افغان شہری طورخم سرحد ی گزرگاہ سے واپس روانہ ہو چکے ہیں اور اب بھی طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں پر بڑی تعداد میں لوگ افغانستان جانے کے لیے جمع ہیں۔
علاقے کے ڈپٹی کمشنر ناصر خان کے مطابق، ”ان میں سے کچھ رجسٹریشن کے کسی ثبوت کے بغیر 30 سال سے زائد عرصے سے پاکستان میں رہ رہے تھے۔ پاکستانی وزارت داخلہ کی طرف سے مہیا کی گئی معلومات کے مطابق غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے والوں میں سے 140،322 افراد ملک چھوڑ کرجا چکے ہیں۔ اس حوالے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”غیر ملکیوں کو گرفتار کرنے کا عمل تاکہ انہیں ملک بدر کیا جا سکے یکم نومبر سے شروع ہو چکا ہے۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابھی بھی رضاکارانہ واپسی کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
حکومت کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں مقیم 40 لاکھ سے زائد افغان باشندوں میں سے 17 لاکھ مطلوبہ دستاویزات کے بغیر پاکستان میں موجود ہیں۔ 1970 کی دہائی کے اواخر سے جاری جنگوں اور داخلی تنازعات کے دوران بہت سے لوگ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 2021ء میں امریکی اور غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں بھی بڑی تعداد میں افغان باشندے ملک چھوڑ گئے تھے۔
پاکستان نے اس بارے میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ہاں عسکریت پسندوں کے حملوں، اسمگلنگ اور دیگر جرائم کے پیچھے اکثر افغان شہریوں کا ہاتھ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے پاکستان سے افغانوں کی ملک بدری سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
افغانستان میں قائم طالبان حکومت نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ شناختی دستاویزات کے بغیر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کو زبردستی ملک بدر نہ کرے اور انہیں ملک چھوڑنے کے لیے تیاری کا وقت دے۔
منگل 31 اکتوبر کی شب جاری کردہ بیان میں طالبان حکام نے پاکستان اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کیا،جنہوں نے ایسے کئی ملین افغان باشندوں کو پناہ دیے رکھی ہے، جو ملک میں کئی دہائیوں کی بدامنی کے دوران ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانوں کو زبردستی ملک بدر نہ کیا جائے بلکہ انہیں اس کی تیاری کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔