نئی دہلی: کسانوں کی تنظیم سمیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم ) نے 21 فروری کو بی جے پی کے رہنماؤں کے خلاف ملک گیر سیاہ پرچم کے ساتھ احتجاج کی کال دی ہے۔ پنجاب ایس کے ایم نے 20 سے 22 فروری تک بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی، وزراء اور ضلعی صدور کے خلاف تین روزہ احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایس کے ایم نے کہا کہ وہ 22 فروری کو ایک میٹنگ منعقد کرے گا تاکہ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے اور کسانوں کے احتجاج کے بارے میں مستقبل کے منصوبوں پر فیصلہ کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے کسان ’دہلی چلو‘ مارچ پر نکلے ہوئے ہیں جنہیں پنجاب-ہریانہ کے شمبھو بارڈر پر روک دیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے طاقت کا استعمال کئے جانے کے باوجود کسان اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دہلی پہنچنے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، حکومت اور کسان رہنماؤں کی چنڈی گڑھ میں ملاقات ہو رہی ہے تاکہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکالا جا سکے۔
کسانوں اور حکومت کے درمیان چوتھے دور کی بات چیت ہو رہی ہے تاکہ کسانوں کے لئے فصلوں کی ایم ایس پی کی ضمانت کے مطالبے پر پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کیا جا سکے۔ پہلے ہونے والی بات چیت سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ دریں اثنا، ہریانہ میں، موبائل انٹرنیٹ سروسز پر پابندی کو مزید دو دنوں کے لئے 19 فروری تک بڑھا دیا گیا ہے۔
سنیوکت کسان مورچہ کی جانب سے اتوار کے روز جاری کردہ سرکاری بیان میں کہا گیا کہ مودی حکومت عوام اور ملک کو دھوکہ دے رہی ہے۔ مورچہ کی جانب سے کہا گیا کہ 2014 کی بی جے پی کی انتخابی مہم میں کے دوران مودی نے چیخ چیخ کر کہا تھا کہ وہ C2+50 فیصد (لاگت سے 50 فیصد زیادہ) کے مطابق ایم ایس پی دے گی، ایسا نہ کر کے انہوں نے کسانوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ’’حکومت دھوکے سے دعویٰ کر رہی ہے کہ C2+50 فیصد کے مطابق ایم ایس پی کا نفاذ ناممکن ہے۔ تاہم، 2023 کے ریاستی انتخابات کے دوران بی جے پی نے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کے لئے فی کونٹل دھان کے لئے 3100 روپے اور راجستھان اور مدھیہ پردیش میں فی کونٹل گیہوں کے لئے 2700 روپے ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدے C2+50 فیصد کے قریب یا اس سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی لوگوں اور ملک کو دھوکہ دے رہی ہے۔‘‘