ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے منگل کے روز فلسطینی تنظیم حماس کے اسرائیل پر حملے میں تہران کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ خیال رہے کہ ہفتے کے روز ڈرامائی انداز میں شروع کیے گئے حملے میں سیکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوگئے ہیں۔
ایران نے اس سے قبل حماس تحریک کی طرف سے ہفتے کی صبح اسرائیل پرکیے گئے اچانک حملے میں اپنے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ الزامات “سیاسی محرکات” پر مبنی ہیں.
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ “ہم فلسطین کی غیرمتزلزل حمایت کرتے ہیں، لیکن ہم فلسطینی ردعمل میں حصہ نہیں لیتے، اس طرح کی کارروائیاں فلسطینی خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں”۔
دوسری طرف ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پیر کے روز کہا کہ تہران پر حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کیے گئے اچانک آپریشن میں ملوث ہونے کا الزام “سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔ وزارت خارجہ مزید کہا کہ تہران فلسطین سمیت دیگر ممالک کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کرتا۔
وال سٹریٹ جرنل نے اتوار کو رپورٹ میں کہا تھا کہ “ایرانی سکیورٹی اہلکاروں نے حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے اچانک حملے کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا تھا۔ مبینہ ایرانی معاونت سے شروع کیے گئےاس حملے میں سینکڑوں اسرائیلی شہریوں کی موت واقع ہوئی ہے۔
امریکی اخبار نے رپورٹ کیا کہ “ایران نے گذشتہ پیر کو دارالحکومت بیروت میں ہونے والی ایک میٹنگ کے دوران اس حملے کے لیے گرین سگنل دیا تھا۔
تاہم امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے اتوار کو سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ “ہم نے ابھی تک اس بات کے شواہد نہیں دیکھے کہ ایران نے اس مخصوص حملے کی ہدایات دی تھی یا اس میں اس کا ہاتھ ہے‘‘۔