اقلیتوں کو بااختیار بنانے کی سعی: شمولیت پر مبنی ہندوستان کی تعمیر
حکومت ہند نے اقلیتی امور کی وزارت کے ذریعے چھ نوٹیفائیڈ اقلیتی فرقوں کی مدد کے لیے کئی اسکیمیں شروع کی ہیں
نئی دہلی، 17دسمبر(یو این آئی) ہندوستان ایک متنوع ملک ہے ، جہاں اقلیتی برادریوں کو بااختیار بنانا سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی ترقی کے مواقع تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کی کلید ہے۔ حکومت ہند نے اقلیتی امور کی وزارت کے ذریعے چھ نوٹیفائیڈ اقلیتی فرقوں-مسلمانوں ، عیسائیوں ، سکھوں ، بودھوں ، جینیوں اور پارسیوں کی مدد کے لیے کئی اسکیمیں شروع کی ہیں اقلیتیں آبادی کا 19.3 فیصد ہیں اور حکومت نے ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی غرض سے وسائل پر توجہ دینے کے لیے 90 اقلیتی اکثریتی آبادی والے اضلاع ، 710 بلاکوں اور 66 قصبوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کوششوں کا مقصد خلا کو پر کرنا اور ہندوستان کی ترقی میں اقلیتوں کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔اقلیتی امور کی وزارت 29 جنوری 2006 کو سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت سے الگ کرکے قائم کی گئی تھی تاکہ اقلیت سے متعلق مسائل پر توجہ دی جا سکے۔ وزارت کے مینڈیٹ میں ان فرقوں کے لیے پالیسی وضع کرنا ، کوآرڈی نیشن ، تشخیص اور ترقیاتی پروگراموں کی نگرانی شامل ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے مزید تحفظ کے لیے مرکزی حکومت نے نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز ایکٹ 1992 کے تحت اقلیتوں کےلیے قومی کمیشن (این سی ایم) قائم کیا۔ ابتدائی طور پر پانچ مذہبی فرقوں کو اقلیتوں کے طور پر نوٹیفائی کیا گیا تھا اور 2014 میں ، جینیوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا تھا۔ این سی ایم اور ریاستی اقلیتی کمیشنز دونوں آئین اور پارلیمنٹ اور ریاستی لیجسلیچر کے ذریعے وضع کردہ آئین اور قوانین کے مطابق اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔وقف ایکٹ ، 1995 (جیسا کہ 2013 میں ترمیم کی گئی تھی) اقلیتی امور کی وزارت کے زیر انتظام ہے ، جس کے تحت مرکزی وقف کونسل (سی ڈبلیو سی) ایک قانونی ادارہ ہے ، جسے مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ ، 1995 کی دفعہ 9 کے پروویڑن کے مطابق قائم کیا تھا۔ اقلیتی امور کے عزت مآب وزیر کونسل کے بربنائے عہدہ چیئرپرسن کے طور پر کام کرتا ہے ، جو 20 اراکین پر مشتمل ہے۔مزید برآں ، وزارت ریاستی وقف بورڈوں کو خودکار اور جدید بنانے کے لیےعمل درآمد سے متعلق ایجنسی یعنی سنٹرل وقف کونسل (سی ڈبلیو سی):قومی وقف بورڈ ترقیاتی اسکیم (کیو ڈبلیو بی ٹی ایس) اور شہری وقف سمپتی وکاس یوجنا (ایس ڈبلیو ایس وی وائی) کے ذریعے دو اسکیمیں نافذ کرتی ہے۔ کیو ڈبلیو بی ٹی ایس کے تحت وقف املاک کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز اور ڈیجیٹائز کرنے اور وقف بورڈز کے انتظام کو بڑھانے کے لیے افرادی قوت کی تعیناتی کے لیے سی ڈبلیو سی کے ذریعے ریاستی وقف بورڈز کو گورنمنٹ گرانٹس ان ایڈ (جی آئی اے) فراہم کی جاتی ہے۔ ایس ڈبلیو ایس وی وائی کے تحت وقف املاک پر تجارتی طور پر قابل عمل منصوبے تیار کرنے کے لیے وقف بورڈز/وقف اداروں کو بلا سود قرضوں کی مزید تقسیم کے لیے سی ڈبلیو سی کو جی آئی اے فراہم کیا جاتی ہے۔ 20-2019سے 24-2023تک کیو ڈبلیو بی ٹی ایس اور ایس ڈبلیو ایس وی وائی کے تحت بالترتیب 23.87 کروڑ روپے اور 7.16 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ، جسے غریب نواز کے نام سے جانا جاتا ہے ، کا انتظام مرکزی ایکٹ ، درگاہ خواجہ صاحب ایکٹ ، 1955 کے ذریعے اقلیتی امور کی وزارت کے تحت ایک درگاہ کمیٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ درگاہ کمیٹی مختلف عقائد کے لاکھوں عقیدت مندوں کو سہولت فراہم کرتی ہے جو صوفی سنت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مزار پر پہنچتے ہیں۔ درگاہ کے زیراہتمام مختلف خیراتی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں جن میں دن میں دو بار عقیدت مندوں کے لیے لنگر (اجتماعی کھانا)، زائرین کے لیے طبی سہولیات ، رمضان کے دوران مفت کھانا ، بیواؤں اور بے سہارا خواتین کو مشاہرہ ، ضرورت مند طلباء کو مالی امداد ، بیت الخلا اور گیسٹ ہاوؤس کمپلیکس ، زکو کی خدمات اور 1100 طلباءکا سی بی ایس ای سے الحاق شدہ اسکول (خواجہ ماڈل اسکول) شامل ہیں۔ درگاہ اپنی خیراتی اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے خواجہ غریب نواز کے اصولوں کے مطابق پسماندہ اور محروم لوگوں کی ترقی کی کوشش کرتی ہے۔
اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرکاری اقدامات
حکومت ہند نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم ، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کئی اسکیمیں شروع کی ہیں۔دوہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق ، عیسائیوں ، جینیوں ، سکھوں اور بودھوں جیسی اقلیتی برادریوں کی شرح خواندگی قومی اوسط 72.98 فیصد سے زیادہ ہے ، جس میں مسلمانوں کی شرح 68.54 فیصد ہے۔ تعلیم کو مزید فروغ دینے اور رسائی کو بڑھانے کے لیے مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبائ کو مختلف وظائف پیش کیے جاتے ہیں۔صرف اسکالر شپ اقلیتوں کی ترقی کو آگے نہیں بڑھا سکتے ؛ معاشی طور پر بااختیار بنانا اہم ہے۔ حکومت پی ایم وکاس اسکیم جیسے اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کررہی ہے،جو انٹرپرینیورشپ اور قیادت کی تربیت ، بہتر ملازمتوں اور خود روزگار کے لیے افراد کو بااختیار بنانے پر مرکوز ہے۔
پی ایم وکاس: پردھان منتری وراثت کا سموردھن (پی ایم وکاس) کا مقصد صنعت سے متعلق ہنرمندی کی تربیت فراہم کرکے نوجوانوں کی ملازمت کو بڑھانا ہے۔ بعد میں ، پانچ اسکیمیں-سیکھو اور کماؤ ، نئی منزل ، یو ایس ٹی ٹی اے ڈی (ترقی کے لیے روایتی فنون/دستکاری میں مہارت اور تربیت کو اپ گریڈ کرنا) نئی روشنی ، اور ہماری دھروہر اسکیم-کاریگروں کی برادریوں کی بہتر مدد کے لیے پی ایم وکاس میں ضم کر دی گئیں ہیں۔21,604 مستفیدین کو تربیت دی گئی اور 41 ہنر ہاٹوں کا اہتمام کیا گیا اور یو ایس ٹی ٹی اے ڈی کے تحت 288.68 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ نئی منزل کے تحت 456.19 کروڑ روپے خرچ کیے گئے اور 98,709 مستفیدین کو تربیت دی گئی۔سیکھو اور کماؤکے تحت 1,744.35 کروڑ روپے خرچ کیے گئے اور 4.68 لاکھ مستفیدین کو تربیت دی گئی۔
اسی طرح ، اقلیتی برادریوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے ، حکومت اقلیتی کاروباریوں کو مالی مدد فراہم کر رہی ہے ، جس سے انہیں کاروبار شروع کرنے یا وسعت دینے اور ان کی روزی روٹی کو بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ ان کوششوں کے ذریعے پائیدار ترقی کے لیے تعلیم اور صنعت کاری دونوں کیلئے مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے 30 ستمبر 1994 کو قائم کردہ نیشنل مائناریٹیز ڈیولپمنٹ اینڈ فنانس کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) اقلیتی برادریوں کے اندر نئے اور موجودہ دونوں کاروباروں کو مالی امداد فراہم کرکے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مائیکرو کریڈٹ ، این جی اوز کے ذریعے مائیکرو کریڈٹ ، اور ٹرم لون جیسے اقدامات کے ذریعے 24-2023 تک 23,85,809 مستفیدین کو 8,771.88 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے ، جس سے ملک بھر میں اقلیتی کاروباریوں کے لیے جامع اقتصادی ترقی اور ہنر مندی کے فروغ کو یقینی بنایا گیا۔حکومت مئی 2018 میں شروع کیے گئے پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم (پی ایم جے وی کے) کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ یہ مرکزی اسپانسرڈ اسکیم 1300 شناخت شدہ علاقوں میں ضروری کمیونٹی انفراسٹرکچر اور بنیادی سہولیات پیدا کرنے پر مرکوز ہے ، جس کا مقصد سماجی و اقتصادی خلا ء کو پُر کرنا ہے۔ اس اسکیم کو ریاستی اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے ، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ تیار شدہ بنیادی ڈھانچہ ان علاقوں کے تمام باشندوں کو فائدہ پہنچائے۔ 23-2022 سے اس کی رسائی اور اثر کو بڑھانے کے لیے نظر ثانی شدہ رہنما خطوط کے ساتھ پی ایم جے وی کے کو 15 ویں مالیاتی کمیشن سائیکل کے تحت ملک کے تمام اضلاع تک توسیع دی جارہی ہے۔ثقافت کسی بھی برادری کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے ، جو اس کی شناخت اور اقدار کو تشکیل دیتی ہے۔ اقلیتی ثقافتوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے ان کے ورثے اور روایات پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے ، ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ یہ بھرپور میراث آنے والی نسلوں کے لیے پھلتی پھولتی رہے۔
جیو پارسی اسکیم: 14-2013میں شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد ٹارگٹڈ مداخلتوں کے ذریعے ہندوستان میں زوال پذیر پارسی آبادی کو پٹری پرلانا ہے۔ اس اسکیم کے تحت 14-2014سے 24-2023 تک 26.78 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اس کے آغاز کے بعد سے ، اس اسکیم نے 23-2022 تک 414 پارسی بچوں کی پیدائش میں تعاون کیا ہے۔آخر میں ویر اعظم کے اس قول کہ ”حکومت نے ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کے منتر اور ‘سرو پنتھ سمبھاؤ’ کے اصولوں کے ساتھ لوگوں کی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے ، جس کا مطلب ہے کہ تمام مذاہب برابر ہیں“کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔