فوجی اسکولوں کی نجکاری سے متعلق حکومت کے فیصلہ پر کانگریس صدر کھڑگے ناراض، صدر جمہوریہ کو لکھا خط
کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو ایک خط لکھا ہے جس میں مرکزی حکومت کے ذریعہ فوجی اسکولوں کی نجکاری سے متعلق فیصلے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ 10 اپریل کو لکھے گئے اس خط میں کھڑگے نے گزارش کی ہے کہ فوجی اسکولوں کی نجکاری سے متعلق قدم کو واپس لیا جائے اور اس پالیسی کو رد کیا جائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ مسلح افواج اور اس سے متعلق اداروں کو ہمیشہ سیاسی نظریات کے سایہ سے دور رکھا گیا، لیکن اب اس کے برعکس کوشش ہو رہی ہے۔
صدر جمہوریہ کو لکھے گئے اپنے خط میں کھڑگے کہتے ہیں کہ ’’آپ جانتی ہیں کہ ہندوستانی جمہوریت نے روایتی طور سے ہمارے مسلح افواج کو کسی بھی پارٹی پالیٹکس سے دور رکھا ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے مسلح افواج اور اس کے معاون اداروں کو مختلف سیاسی نظریات کے سایہ سے دور رکھا۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ’’آپ اس وسیع طور پر مقبول بات کی تعریف کریں گی کہ یہ قصداً کی گئی واضح تقسیم اعلیٰ جمہوری اقدار کے مطابق اور بین الاقوامی تجربات پر مبنی تھی۔ اس نے حقیقت میں ہماری جمہوریت کو مضبوطی سے پھلنے پھولنے دیا، بھلے ہی دنیا بھر میں حکومتی نظام فوجی مداخلت، جمہوریت کو تباہ کرنے اور مارشل لاء کا شکار ہوئیں۔‘‘
کانگریس صدر کھڑگے نے خط میں لکھا ہے کہ ’’میں آپ کی توجہ ایک آر ٹی آئی کے جواب پر مبنی جانچ رپورٹ کی طرف مرکوز کرانا چاہتا ہوں، جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے نئے ’پی پی پی‘ ماڈل کا استعمال کر کے فوجی اسکولوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’اب ان میں سے 62 فیصد اسکولوں کو لے کر بتایا جاتا ہے کہ ان کی ملکیت بی جے پی-آر ایس ایس لیڈروں کے پاس ہے۔‘‘ کھڑگے کے مطابق ملک میں 33 فوجی اسکول ہیں اور یہ پوری طرح سے سرکاری گرانٹ والے ادارے تھے جو وزارت دفاع کے تھت خود مختار ادارہ ’فوجی اسکول سوسائٹی‘ (ایس ایس ایس) کے زیر انتظام تھے۔
کھڑگے نے دعویٰ کیا کہ رپورٹ میں یہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ جن 40 ایم او یو پر دستخط کیے گئے ہیں، ان میں سے 62 فیصد آر ایس ایس-بی جے پی-سنگھ فیملی سے متعلق اشخاص اور اداروں کے پاس گئے ہیں۔ اس میں ایک وزیر اعلیٰ کا کنبہ، کئی اراکین اسمبلی، بی جے پی عہدیدار اور آر ایس ایس لیڈران شامل ہیں۔ کانگریس صدر نے کہا کہ ’’میں پوچھتا ہوں کہ کیا اسے داخلہ سطح پر مسلح افواج کو نظریات طور سے راغب کرنے کے لیے اثرانداز بنایا گیا ہے؟ کسی بھی سیاسی پارٹی نے کبھی ایسا نہیں کیا، کیونکہ ہمارے مسلح افواج کی بہادری اور ہمت کو پارٹی پالیٹکس سے دور رکھنے کے لیے عام قومی اتفاق ہے۔‘‘