پاکستانی انتخابی نتائج نے ملکی سیاسی بساط الٹ کر رکھ دی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور اس کی حامی جماعیتں شدیدمشکلات کا شکاردکھائی دیتی ہیں۔ آٹھ فروی سے قبل بظاہر آسان نظر آنے والا حکومت سازی کا عمل اب کانٹوں کی سیج بن چکا ہے۔ پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے انعقاد کو ایک ہفتے سے زائد کا وقت گزر جانے کے باجود حکومت سازی کا عمل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ نے سارے پاپڑ بیل کر، جن سیاسی جماعتوں کو انتخابات جتوانے کا ‘بندوبست’کیا تھا، وہ ابھی تک پاور شیئرنگ کے کسی فارمولے پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔
آئندہ وزیر اعظم کے لیے موسٹ فیورٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی جانب سےوزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر سجانے سے دستبرداری کے بعد سے شروع ہونے والے سیاسی جوڑ توڑ کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے اسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر مکمل مفلوج کر دیا گیا تھا۔ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو جلد بازی میں متعدد مقدمات میں سزائیں سنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ باقی بچ جانے والے رہنماؤں پر بھی مقدمات کے انبار لگا دیے گئے۔
پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ اس جماعت کا انتخابی نشان بلا تک اس سے چھین لیا گیا۔ تاہم ان تمام روکاٹوں کے باوجود جب پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی کو نہیں روکا جا سکا تو پھر انتخابی نتائج میں تبدیلیاں کرکے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جن دیگر جماعتوں کو جتوایا گیا، وہ ملکی سیاسی واقتصادی صورتحال اور عوامی رد عمل کے پیش نظر فاق میں حکومت بنانے سے گریز کرتی نظر آرہی ہیں۔
اس صورتحال نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بظاہر شدید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ تجزیہ کار سلمان عابد کے بقول اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر جماعتوں کی حکومت سازی میں ہچکچاہٹ کی ایک بڑی وجہ خالی پڑا سرکاری خزانہ بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ” جو بھی پارٹی وفاق میں حکومت بنائے گی اسے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد، نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور نجکاری سمیت کئی مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ اس جماعت کو ان فیصلوں کی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑے گی۔‘‘
سینئر صحافی نوید چوہدری کے بقول نئی حکومت کی تشکیل میں تاخیر کا ایک سبب اسٹیبلشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی بھی ہے۔ نوید چوہدری کے بقول، ”میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ انہیں پاکستان بلا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مائنس کر دیا گیا ہے۔‘‘
اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے کئی تجزیہ نگاروں جیسے فیصل واڈا کے ذریعے میاں نواز شریف کے خلاف بیانیہ بنایا جاتا رہا۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی خصوصا بلاول بھٹو نے بھی کسی اشارے پر الیکشن سے پہلے جس طرح نواز شریف کو ٹارگٹ کیا اس سے بھی میاں صاحب رنجیدہ ہیں اس طرح ان کے اور پیپلز پارٹی میں ورکنگ ریلیشن شپ اب آسان نہیں رہا ہے۔‘‘ نوید چوہدری کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی ڈر ہے کہ میاں نواز شریف اقتدار میں آکر پہلے کی طرح ان کے مقابلے میں کوئی اسٹینڈ لے کر پھر مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔
معروف تجزیہ کار محمد مالک نے ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ سازوں نے نون لیگ کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر وہ وفاق میں حکومت نہیں بنائے گی تو پھر پنجاب میں بھی انہیں (مریم نواز کے بطور وزیر اعلی) حکومت نہیں مل سکے گی۔ ہفتے کے روز کمشنر راوالپنڈی لیاقت چٹھہ کے انکشافات نے نون لیگ کی قیادت کو بھی اقتدار لینے سے متعلق دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے پاکستانی فوج کو دھاندلی کے الزامات سے بری کرتے ہوئے پاکستان کے چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کو انتخابی دھاندلی کا زمہ دار قرار دیا تھا۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے قربت کا تاثر رکھنے والے پیر صاحب پگارا کے مریدین چند سندھی جماعتوں کے ساتھ سندھ میں دھرنا دے کر آصف زرداری پر دباؤ بڑھا رہے ہیں ۔ ان کے دھرنے سے کبھی مارشل لا کی بات سامنے آتی ہے اور کبھی لوٹی گئی سیٹوں کی واپسی کا مطالبہ بلند ہوتا ہے۔ ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہے کہ الیکشن کے حوالے سے ایک درخواست انصاف کے ایوانوں میں پہنچ چکی ہے۔ اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے پر رضامند نہ ہو سکیں تو پھر عدالت کی اجازت سے نگران سیٹ اپ کی میعاد بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔ نوید چوہدری کہتے ہیں کہ لگتا ہے جسٹس قاضی فائز عیسی اس کی اجازت نہیں دیں گے اسی لئے انہیں کمشنر کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نوید چوہدری کے بقول پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے لیے اگلے چند دن بہت اہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متنازعہ سیٹیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس بھی رہ سکتی ہیں اور انہیں پی ٹی آئی کے سپرد کرکے گیم بھی تبدیل کی جا سکتی ہے۔” عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو سانحہ نو مئی پر مکمل ‘کمپرومائز‘ کرنا ہوگا جس کا فی الحال زیادہ امکان نہیں ہے۔‘‘