’مہرولی آرکیالوجیکل پارک‘ کے اندر موجود دو ڈھانچے مذہبی اہمیت کے حامل؛اے ایس آئی نے سپریم کورٹ کو دی جانکاری
34
نئی دہلی، 25 دسمبر:۔ (ایجنسی) دہلی کے ’مہرولی آرکیالوجیکل پارک‘ میں موجود 2 انتہائی قدیم یادگاروں پر انہدامی کارروائی کا اندیشہ منڈلا رہا ہے۔ یہ دو قدیم یادگاریں ہیں عاشق اللہ کی درگاہ اور بابا فرید کی چلہ گاہ، جو کہ بارہویں اور تیرہویں صدی کے تاریخی ڈھانچے ہیں۔ ان دونوں ڈھانچوں کو بچانے کے لیے ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی اور اب اس سے متعلق ایک انتہائی اہم خبر سامنے آ رہی ہے۔ اے ایس آئی نے ان دونوں ڈھانچوں سے متعلق اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کر دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ڈھانچے مذہبی اہمیت کے حامل ہیں۔ اے ایس آئی (آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مہرولی پارک کے اندر موجود 2 قدیم یادگاریں مذہبی اہمیت رکھتی ہیں، کیونکہ مسلم عقیدت مند روزانہ عاشق اللہ کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔ ساتھ ہی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد صوفی سَنت بابا فرید کی چلہ گاہ پر بھی ہوتی ہے۔ عدالت کے سامنے پیش رپورٹ میں اے ایس آئی نے یہ بھی بتایا کہ شیخ شہاب الدین (عاشق اللہ) کی قبر پر ایک نوشتہ موجود ہے جس میں اس کی تعمیر 1317ء میں ہونے کا تذکرہ ہے۔ اے ایس آئی کا کہنا ہے کہ بازآبادکاری اور تحفظ کے لیے ڈھانچہ میں ہوئی تبدیلی نے اس جگہ کی تاریخیت کو متاثر کیا ہے۔ یہ مقبرہ پرتھوی راج چوہان کے قلعہ کے قریب ہے۔ یہ قدیم یادگار اور مقام آثار قدیمہ و باقیات ایکٹ کے مطابق 200 میٹر کے ریگولیٹیڈ ایریا میں آتا ہے۔ اس لیے کسی بھی مرمت، تجدیدکاری یا تعمیری کام کو اہل اتھارٹی سے اجازت لینے کے بعد ہی کیا جانا چاہیے۔اے ایس آئی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دونوں قدیم یادگاروں کا عقیدتمند اکثر دورہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے عاشق اللہ درگاہ پر موم بتی جلاتے ہیں، جبکہ بری روحوں اور برائی سے چھٹکارا پانے کے لیے چلہ گاہ پر جاتے ہیں۔ ساتھ ہی رپورٹ میں مطلع کیا گیا ہے کہ یہ مقام ایک خاص مذہبی طبقہ کے مذہبی جذبات اور عقیدہ سے بھی جڑا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں ضمیر احمد جملانا نے عرضی داخل کر دہلی کے مہرولی آرکیالوجیکل پارک کے اندر موجود صدیوں پرانے مذہبی ڈھانچوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے تجاوزات ہٹانے کے نام پر ڈھانچوں کو ان کی تاریخی اہمیت کا اندازہ کیے بغیر منہدم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ضمیر احمد نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 8 فروری کو سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔