International

وہ سوال جن کے جواب شہباز شریف نہ دے سکے

111views

لاہور میں میڈیا نمائندوں کے ساتھ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی گفتگو اس وقت دلچسپ صورت اختیار کر گئی جب انہیں مشکل سوالوں کے جواب کو گول کرنا پڑا۔لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹیریٹ میں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کے ایک منتخب گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے تفصیلی اظہار خیال کیا، اپنی کامیابیاں گنوائیں، مستقبل کے پلان شئیر کیے اور (ن) لیگ کے منشور کے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔

جب ان سے پارٹی کے ساتھ کئی دہائیوں کی وابستگی رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔

طلاق۔ محض تین الفاظ یا انمِٹ داغ

ڈی ڈبلیو کی طرف سے پوچھے جانے والے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں ووٹروں سے کیے جانے والے وعدوں کی پاسداری کریں کیا حکومت سے نکالے جانے کے بعد جی ٹی روڈ کے احتجاجی ریلیوں میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دینے والے میاں محمد نواز شریف کے نزدیک بھی اس نعرے کا مطلب یہی تھا ؟ اس سوال پر پہلے تو انہوں نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا اور بعد میں یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ اس کے دونوں ہی مطلب ہو سکتے ہیں۔

میاں شہباز شریف سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر پیچھے کیوں ہے تو انہوں نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے بتایا کہ ہم نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دیے، دانش اسکول کھولے، روایتی پٹواری نظام کا خاتمہ کیا اور اب نئے منشور میں بھی نوجوانوں کے لیے کئی منصوبے لا رہے ہیں۔

16 اپریل کے آس پاس لوک سبھا انتخابات  ہو نے کے امکان

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ پاکستان کے دو دوست ممالک نے عمران خان کے برسر اقتدار رہنے کی صورت میں مالی تعاون سے انکار کر دیا تھا اس پر شہباز شریف نے بتایا کہ مجھے اس خبر کا تو پتا نہیں لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جنازہ نکالا گیا اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات زمین بوس ہو گئے تھے جنہیں سب نے مل کر ٹھیک کیا۔ ”ماضی کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ خوامخواہ کی لڑائی لی۔ امریکہ کوئی نتھو پھتو ملک نہیں ہے وہ ایک سپر پاور اور عالمی طاقت ہے۔ اس حقیقت کو ماننا چاہیے۔‘‘

جب مسلم لیگ ن کے صدر سے یہ دریافت کیا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے منشور کے اعلان میں تاخیر کیوں ہوئی تو ان کا جواب تھا کہ اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے۔ بعد میں اسی حوالے سے پوچھے جانے والے متعدد سوالوں کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے منشور میں تین اہم چیزیں ہیں جن میں ملک کی نوجوان نسل کی جدید تعلیم، تربیت اور اُنہیں بااختیار بنانا، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور پاکستان بھر میں شمسی توانائی کو عام کرنا شامل ہیں۔

جب میاں شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ کیوں قرار دیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی ایسی بات نہیں کہ دراصل وہ میڈیا نمائندو ں کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے جہاں پر ایک خاتون صحافی نے یہ کہا تھا کہ آپ پچھلے تیس سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ بنے ہوئے ہیں۔ ”حالانکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ میں وہ آدمی ہوں جس نے نے نیب جیل کاٹی، اٹک قلعے میں رہا اور لانڈھی جیل بھگتی۔ ‘‘

نگران وزیر اعظم کی طرف سے قائد اعظم کے حوالے سے دیے جانے والے ایک حالیہ بیان کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کو یہ تو معلوم نہیں ہے کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے قائد اعظم کے حوالے سے کیا بیان دیا تھا تاہم نگران وزیر اعظم کا حق ہے کہ وہ بات کریں لیکن ہمارا ان سے اتفاق یا اختلاف ضروری نہیں۔ ان کے بقول پاکستان مسلم لیگ نون قائد اعظم کی تعلیمات کے ساتھ کھڑی ہے۔

اس سے پہلے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ تاثر درست ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ بننے سے ن لیگ کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ ان کے بقول حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ پاکستان کی بہتری کے لیے کیا تاکہ ملک دیوالیہ نہ ہو۔ ”اتحادی حکومت میں سب ہی ذمہ دار ہوتے ہیں، یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ جس کے پاس جو محکمہ ہوتا ہے وہی اُس کا جواب دہ ہوتا ہے۔ سولہ ماہ میں سارے فیصلے کابینہ نے کئے اور جو جو لوگ کابینہ میں بیٹھے تھے وہ سارے ان فیصلوں کی ذمہ داری لینے سے بھاگ نہیں سکتے۔‘‘

میثاق جمہوریت کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ کی حکومت قائم ہوتی ہے تو کسی سے کوئی سیاسی انتقام نہیں لیا جائے گا مگر قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے سابقہ دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا یہ رواج دوبارہ عمران خان نے شروع کیا اور ایک فسطائیت کا دور تھا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے اپنی ساری توانائیاں ملک کی خدمت کرنے کی بجائے حزبِ اختلاف کو جیلوں میں بند کرنے پر لگائیں۔

سنہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات پر گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اُس وقت ایک منصوبے کے تحت آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھایا گیا گیا، آر ٹی ایس سسٹم بیٹھنے کے باوجود ن لیگ جیت چکی تھی، مگر اُس کے بعد پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکال کا ٹھپے لگائے گئے اور نواز شریف کے کاموں کو گالی بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح ترقی کا سفر روک دیا گیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ جو لوگ پچھلے چھیتر سالوں میں ملک پر حکمران رہے ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ملک اس حال تک کیسے پہنچا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب آگے کی طرف دیکھنا چاہئے اور ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہئے۔

Follow us on Google News