’یہی سبب ہے جو ہم ای وی ایم پر سوال اٹھا رہے ہیں‘، جئے رام رمیش نے انتخابی کمیشن کو پھر لکھا خط
کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ایک بار پھر انتخابی کمیشن کو خط لکھ کر ای وی ایم اور وی وی پیٹ کا معاملہ اٹھایا ہے۔ انھوں نے انتخابی کمیشن کے ذریعہ وی وی پیٹ سے متعلق فکر کو خارج کیے جانے پر افسوس ظاہر کیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کو خط لکھ کر معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی گزارش کی ہے۔
تازہ خط میں جئے رام رمیش نے لکھا ہے کہ ’’30 دسمبر کو اپوزیشن اتحاد کی طرف سے انتخابی کمیشن کو بھیجے گئے خط پر کمیشن نے جواب دیا ہے۔ میں نے انتخابی کمیشن سے ای وی ایم اور وی وی پیٹ پر تبادلہ خیال اور مشورہ کے لیے کمیشن سے ملنے کا وقت مانگا تھا، لیکن کمیشن نے ہمارے مطالبات کو نہیں مانا۔‘‘
انتخابی کمیشن کو لکھے گئے تازہ خط کو جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا ہے۔ اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’میں نے انتخابی کمیشن کے ساتھ ’انڈیا‘ میں شامل پارٹیوں کے لیڈران کی ملاقات کے لیے وقت دینے کی واضح گزارش کی تھی۔ ملاقات کے ایجنڈے میں وی وی پیٹ کے استعمال پر تبادلہ خیال کرنا اور مشورہ دینا شامل تھے۔ ہمارا مطالبہ منظور کرنے کی جگہ کمیشن نے ہمیں انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ پر موجودہ ’ایف اے کیو‘ کے جواب پڑھنے کا مشورہ دے دیا۔ جب ہم نے کہا کہ ہمارے سوالوں کے جواب ان ’ایف اے کیو‘ سے نہیں مل رہے ہیں، تو کمیشن نے ہمارے سوالات کو ہی غلط بتا دیا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہم کیوں ای وی ایم اور وی وی پیٹ پر ناظرین کے سامنے بحث کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہی ای وی ایم اور وی وی پیٹ کو لے کر بحث نہ کرنا بے حد فکر انگیز بات ہے۔‘‘
جئے رام رمیش نے خط میں آگے لکھا ہے کہ ’’یہ جان کر بھی حیرانی ہوتی ہے کہ کمیشن عدالتی احکامات کی آڑ لے رہا ہے، ہمیں یہ بھی یاد دلا رہا ہے کہ ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے معاملے پر دائر مفاد عامہ عرضیوں کو کارج کر دیا گیا ہے۔‘‘ کانگریس لیڈر نے مزید لکھا ہے کہ ’’2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ’انڈیا‘ میں شریک پارٹیوں کو 60 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے۔ پھر بھی کمیشن ان پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملاقات کا موقع دینے سے انکار کرتا رہا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک اور غیر معمولی ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ’’آئندہ عام انتخاب جلد ہی ہونے والے ہیں، میں ایک بار پھر کمیشن سے بصد احترام گزارش کرتا ہوں کہ وہ انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ایک چھوٹے نمائندہ وفد سے ملاقات کریں اور کم از کم یہ سنیں کہ وی وی پیٹ کے معاملے پر انھیں کیا کہنا ہے۔‘‘