71
وقف بورڈ کا ذکر قرآن میں نہیں ہے: بی جے پی رکن پارلیمنٹ کی دلیل
نئی دہلی، 7 ستمبر:۔ (ایجنسی) وقف (ترمیمی) بل پر غور کرنے کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کی جمعہ کو منعقدہ چوتھی میٹنگ میں بھی زبردست ہنگامہ ہوا۔ میٹنگ میں شرکت کرنے والے مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے بل کی ضرورت اور اس کی دفعات پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی۔ وہیں، اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ نے میٹنگ میں محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے دی گئی پیشکش کو غلط قرار دیتے ہوئے میٹنگ میں ہنگامہ کیا۔ اجلاس کے دوران حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ کے درمیان زبردست بحث بھی ہوئی۔ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ سنجے سنگھ اور اسد الدین اویسی کی بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ کئی مرتبہ تلخ کلامی ہوئی۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں منعقدہ جے پی سی کی چوتھی میٹنگ میں مرکزی وزارت ثقافت کے تحت محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے عہدیداروں نے اپنی پریزنٹیشن پیش کی، تاہم اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے ان کے پیش کردہ اعداد و شمار کو غلط قرار دیتے ہوئے ہنگامہ کیا۔اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ نے اے ایس آئی اہلکاروں پر جے پی سی کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا اور یہاں تک انتباہ دیا کہ ایسا کرنے پر ان کے خلاف استحقاق کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اے ایس آئی کے عہدیداروں نے میٹنگ میں بتایا کہ ان کا وقف بورڈ کے ساتھ ملک بھر میں 132 جائیدادوں کو لے کر تنازعہ ہے لیکن عآپ کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے فوری طور پر ان اعداد و شمار کو غلط قرار دیا اور کہا کہ آپ نے پورے ملک میں 132 جائیدادوں کے بارے میں بتایا ہے، جبکہ صرف دہلی میں اے ایس آئی نے 172 وقف املاک پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس معاملے کو لے کر حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ عہدیداروں نے کمیٹی کے سامنے سیاحت کے نقطہ نظر سے 53 اہم اور مشہور یادگاروں کی فہرست بھی پیش کی جس پر مختلف وقف بورڈ کے ساتھ تنازعات چل رہے ہیں۔ محکمہ کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے کئی یادگاروں کو بہت پہلے وقف املاک قرار دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کو منعقدہ جے پی سی میٹنگ میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا اور تلنگانہ وقف بورڈ کے نمائندوں نے بھی تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بل کی سخت مخالفت کی۔ مسلم تنظیموں نے وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے، کلکٹر کو زیادہ اختیارات دینے، وقف کے استعمال کنندگان کو ہٹانے، وقف کو جائیداد عطیہ کرنے کے لیے 5 سال تک عملی مسلمان ہونے کی شرط جیسی کئی دفعات کو سراسر غلط قرار دیا۔ بل کی ضرورت اور حکومت کی نیت پر بھی سوال اٹھائے گئے۔ دریں اثناء اسد الدین اویسی نے اس وقت شدید ردعمل کا اظہار کیا جب ایک بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ وقف بورڈ ایک غیر اسلامی ادارہ ہے کیونکہ اس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ اس معاملے پر دونوں کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔