پاکستان میں ایران کے فضائی حملے کے چند روز بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔ اب ہفتے کے روز پاکستان سے ملحقہ ایران کے جنوب مشرقی سرحدی علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کی تصدیق ایران میں پاکستان کے سفیر نے کی ہے۔ اسی دوران ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ پولیس ان تینوں مسلح افراد کی تلاش کر رہی ہے جو فائرنگ کے بعد موقع سے فرار ہو گئے۔
اس واقعے کے حوالے سے پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر لکھا، سراوان میں 9 پاکستانیوں کے ہولناک قتل پر گہرا صدمہ ہے۔ سفارت خانہ ان کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ ہم نے ایران سے اس معاملے میں تعاون کی درخواست کی ہے۔
اس واقعے پر ایران کے سرکاری میڈیا نے کہا کہ صوبہ سیستان بلوچستان کے سراوان میں فائرنگ کی ذمہ داری کسی شخص یا گروہ نے قبول نہیں کی۔ جبکہ بلوچ حقوق گروپ حلواش نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے پاکستانی مزدور تھے جو آٹو ریپئر شاپ پر کام کرتے تھے اور وہیں رہتے تھے۔ اس واقعے میں 9 پاکستانیوں کی موت کے علاوہ تین دیگر افراد زخمی بھی ہیں۔
بھارت کی مقبول ترین ڈش ’بٹر چکن‘ کس نے ایجاد کی؟
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہےکہ یہ ایک ہولناک اور قابل نفرت واقعہ ہے اور ہم اس کی بلاشبہ مذمت کرتے ہیں۔ ہم ایرانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس واقعے کی فوری تحقیقات اور ملوث افراد کو جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت پر زور دے رہےہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانو نے فائرنگ کی مذمت کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان کے مجوزہ دورہ پاکستان سے قبل پیش آیا ہے۔ وہ پیر کو پاکستان جا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ایران اور پاکستان دشمنوں کو ان دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ایوانوں کے وقار کے تحفظ کی ضرورت: مودی
آپ کو بتاتے چلیں کہ اس علاقے میں کافی عرصے سے سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ منشیات کے اسمگلروں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ ایران میں ایندھن کی قیمتیں دنیا میں سب سے کم ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان اور افغانستان میں بھی ایندھن کی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔