لوک سبھا انتخابات کو لے کر دہلی میں باقی ملک کی طرح ماحول بدل رہا ہے۔ جس وقت انتخابات کا اعلان ہوا تھا اس وقت تک عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد کو لے کر طرح طرح کے خدشات کا ذکر ہو رہا تھا جس میں سب سے اہم بات یہ کہی جار رہی تھی کہ پنجاب میں انڈیا نامی اتحاد کی دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہی ہیں جبکہ دہلی میں یہ دونوں پارٹیاں اتحاد میں انتخابات لڑ رہی ہیں۔ یہی سوال جب شمال مشرقی دہلی سے کانگریس کے امیدوار کنہیا کمار سے کیا گیا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’انڈیا کی ٹیم میں وراٹ کوہلی اور روہت شرما ساتھ کھیلتے ہیں جبکہ آئی پی میں دونوں الگ الگ ٹیموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘
جیسے جیسے دہلی میں انتخابی تاریخیں قریب آتی گئیں ویسے ویسے انڈیا نامی اتحاد کی تصویر بدلنی شروع ہو گئی اور اتحاد کے تعلق سے خدشات دور ہونے شروع ہو گئے۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد عام آدمی پارٹی نے اس گرفتاری کا فائدہ اٹھانا شروع کیا اور نعرہ دیا ’جیل کا جواب ووٹ سے‘۔ جہاں کیجریوال کی گرفتاری کا عام آدمی پارٹی نے فائدہ اٹھایا وہیں عدالت سے ان کی ضمانت کے بعد عام آدمی پارٹی نے اس کو خوب بھنایا۔ کیجریوال نے ضمانت ملنے کے بعد لوگوں سے جب خطاب کیا تو انہوں نے بی جے پی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی یعنی کون ہوگا وزیر اعظم مودی کا جاں نشین، وزیر داخلہ امت شاہ یا اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ؟ انہوں عوام میں پہلے سے موجود ان دونوں کے تعلق سے خدشات کو ہوا دینے کی کوشش کی۔
دہلی میں بی جے پی نے موجودہ سات ارکان پارلیمنٹ میں سے چھ کے ٹکٹ کاٹ دئے جس میں سب سے زیادہ عوام کو حیرانی جنوبی دہلی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بڈھوڑی کا ٹکٹ کاٹنے سے ہوئی کیونکہ رمیش بدھوڑی کو علاقہ کے عوام سنگھ اور مودی کا قریبی سمجھتے تھے۔ جنوبی دہلی سے بی جے پی نے دہلی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما رام ویر سنگھ بدھوڑی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ رام ویر سنگھ بدھوڑی جو دہلی کی اکثر پارٹیوں میں رہے ہیں ان کا تعلق گوجر طبقہ سے ہے۔ دہلی میں سات سیٹوں میں سے چار سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کے امیدوار انتخابی میدان میں ہیں جبکہ باقی تین سیٹوں پر کانگریس کے امیدوار میدان میں ہیں۔ جنوبی دہلی کی پارلیمانی سیٹ جو عام آدمی پارٹی کے حصہ میں آئی ہے اس نے اپنے رکن اسمبلی سہی رام پہلوان کو رام ویر سنگھ کے خلاف کھڑا کیا ہے۔ ان کا تعلق بھی گوجر سماج سے ہے اور وہ بھی بدھوڑی ہیں۔
انیش رنجن جو بدرپور میں آر ڈبلو اے کے جنرل سیکریٹری ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’سہی رام اور رام ویر سنگھ بدھوڑی کے اخلاق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سہی رام زمین سے جڑ ے نظر آتے ہیں، جبکہ رام ویر سنگھ بدھوڑی بہت نخرے والے ہیں۔‘‘ جنوبی دہلی پارلیمانی سیٹ جس میں دہلی کی بڑی کالونیاں بھی آتی ہیں اور غریب لوگوں کے وہ علاقہ بھی شامل ہیں جو یا تو کچی آبادی ہیں یا پھر وہاں پر رجسٹری پر پابندی ہے۔ اس پارلیمانی حلقہ کی ایک بڑی آبادی غیر قانونی طریقہ سے یہاں رہتی ہے اور اس کو او زون علاقہ کہا جاتا ہے۔ سال 2020 کے اسمبلی انتخابات میں رام ویر سنگھ بدھوڑی کی انتخابی تشہیر کے لئے منوج تیواری آئے تھے، جنہوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ رام ویر سنگھ بدھوڑی کو جتائیں تو یہ او زون گو زون ہو جائے گا لیکن او زون علاقہ میں رہنے والے لوگوں کاکہنا ہے کہ رام ویر سنگھ بدھوڑی کے جیتنے کے بعد بھی چار سال تک کچھ نہیں ہوا اور اب اگلے سال اسمبلی انتخابات پھر سر پر کھڑے ہیں۔ اس وجہ سے وہاں کے لوگ رام ویر سنگھ سے بہت ناراض ہیں۔
سہی رام کو جہاں عوامی رہنما ہونے کا فائدہ مل رہا ہے وہیں اس حلقہ کی بڑی آبادی کو عآپ کے ارکان اسمبلی کی اچھی شبیہ کا فائدہ بھی پہنچ رہا ہے۔ سوربھ بھاردواج اور آتشی کا یہاں سے نمائندہ ہونے کا بہت فائدہ نظر آ رہا ہے۔ رام مندر تعمیر کا اثر ہے لیکن وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر ریاستی حکومت سے صحیح فائدہ لینا ہے تو رکن پارلیمنٹ بھی اسی پارٹی کا ہونا چاہئے جس کی ریاست میں حکومت ہوتی ہے۔ غریب عوام جہاں ریاستی حکومت کی جانب سے بجلی اور پانی کی شرح میں کٹوتی، بسوں میں خواتین کے لئے مفت سفر اور خواتین کو ایک ہزار روپے ماہانہ ملنے کا فائدہ سہی رام کو پہنچ رہا ہے۔
جنوبی دہلی میں اگر آبادی کا تناسب دیکھا جائے تو یہاں 31 فیصد او بی سی کی آبادی ہے جبکہ دلت 16 فیصد، گوجر طبقہ کے 8 فیصد اور 7 فیصد مسلمان ہیں۔ رام ویر سنگھ بدھوڑی جن کا سیاسی تجربہ بہت ہے اور وہ بی جے پی کے امیدوار ہیں اس کا فائدہ ان کو ملتا نظر آ رہا ہے۔ رام مندر کی تعمیر اور مودی کی شبیہ جہاں ان کے حق میں کام کر رہی ہے وہیں بی جے پی کے ووٹر میں مایوسی کی وجہ سے انتخابی مقابلہ بہت قریبی ہو گیا ہے۔ سہی رام پہلوان جن کا رام ویر سنگھ سے کوئی مقابلہ نہیں سمجھا جا رہا تھا اب اس حلقہ میں انتخابی مقابلہ قریبی ہو گیا ہے اور عوام کی نظر میں اس کی سب سے بڑی وجہ دونوں امیدواروں کا عوام سے رابطہ اور ان کا اخلاق بتایا جا رہا ہے۔