عالمی بینک کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی معیشتیں کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد میں اضافہ اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں تال میل برقرار نہیں رکھ پارہی ہیں۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی معیشتوں کی کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد میں اضافہ اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں تال میل برقرار نہیں رہنے سے خطے کو آبادی سے فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ ہے-
جنوبی ایشیا کے لیے عالمی بینک کے چیف اکنامسٹ فرانزسکا اوہنسورج نے جنوبی ایشیا میں آبادی اور روزگار کے مواقع کے حوالے سے منگل کے روز ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ “خطرہ اس بات کا ہے کہ آبادی میں اضافے کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا، یہ ضائع ہوجائے گا۔”انہوں نے کہا کہ، “کاش لوگ کام کرسکیں، یہ ایک شاندار موقع ہے، ترقی کرنے کے لیے۔ لیکن اب تک روزگار کا تناسب گرتا ہی جا رہا ہے۔”
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2000 سے 2023 کے درمیان روزگار کی شرح میں سالانہ 1.7فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ کام کرنے کی عمر والے افراد کی آبادی میں سالانہ 1.9فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان اعدادو شمار کے مطابق جنوب ایشیا خطے میں سالانہ دس ملین ملازمتیں پیدا ہوئیں جب کہ کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد میں سالانہ اوسطاً 19ملین کا اضافہ ہوا۔
ورلڈ بینک نے 31مارچ 2025 کو ختم ہونے والے مالیاتی سال میں جنوبی ایشیا کے لیے ترقی کی شرح چھ سے 6.1 فیصدتک رہنے کی امید ظاہر کی ہے۔ اس کی اہم وجہ بھارت میں مضبوط شرح نمو ہے، جہاں معیشت میں 6.6 فیصد کی رفتار سے ترقی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ بھارت کے مرکزی بینک نے اس مدت کے دوران سات فیصد کی ٹھوس ترقی کی پیش گوئی کی ہے۔
بھارت میں کورونا کی وبا کے بعد سے ترقی میں تیزی آئی ہے جس کی ایک وجہ حکومتی اخراجات میں اضافہ اور تعمیراتی انڈسٹری میں ترقی ہے۔ لیکن ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت میں نجی سرمایہ کاری اب بھی کافی کمزور ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع کو نقصان پہنچا ہے۔
ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ سال 2000سے 2022 کے درمیان نیپال کو چھوڑ کر جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بھارت میں روزگار کا تناسب مزید کم ہوا ہے۔ تاہم ابتدائی اعداد و شمار سن 2023 میں بہتری کی جانب لوٹنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، “مجموعی طورپر سال 2000 سے 2023 کے درمیان روزگار میں اضافہ کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد میں اضافے سے کافی کم تھا اور روزگار کے تناسب میں کمی آئی۔” ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جنوب ایشیائی ملکوں کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں تیزی لانے کے لیے اپنی متعدد پالیسی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا۔
عالمی بینک نے مشورہ دیا کہ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو کارکنوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے پیداواری فرموں کی حوصلہ افزائی کریں، لیبر اور ملکی مارکیٹ کے ضابطوں کو ہموار کریں اوربین الاقوامی تجارت کے لیے زیادہ کھلا پن پیدا کریں۔