ہندوستان کی جنگ آزادی اور اس کی تعمیر و تشکیل کی جب بھی بات ہوگی اردو کا ذکر ضرور ہوگا: سلمان خورشید

نئی دہلی، 15 فروری (یو این آئی) جنگ آزادی اور ہندوستان کی تعمیر و تشکیل میں اردو کی لازوال خدمات کا ذکر کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سلمان خورشید نے کہا کہ جب ہندوستان کی جنگ آزادی اور اس کی تعمیر و تشکیل کی جب بھی بات ہوگی اردو کا ذکر ضرور ہوگا کیوں کہ اردو کے بغیر جنگ آزاد ی کا ذکر ادھورارہے گا یہ بات انہوں نے گزشتہ رات وزارت اطلاعات و نشریات کے سابق جوائنٹ ڈائرکٹر اور ماہنامہ ’آجکل‘ اردو کے سابق مدیر حسن ضیاءکی کتاب ’اردو صحافت اور ادب‘ کا اجراءکرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہاکہ اردو اور اردو صحافت نے جنگ آزادی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے کیوں آزادی کی جتنی بھی مشعلیں روشن ہوئیں، وہ اردو کی ہی تھیں اور جتنے بھی نعرے لگائے گئے وہ اردو کے ہی تھے۔انہوں نے اردو کو درپیش چیلنج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اردو زندہ ہے اور زندہ رہے گی لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اردو زبان یا اردو صحافت کس طرح زندہ ہے۔ انہوں نے حسن ضیاءکی صحافتی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ صحافی وکیل بھی ہو اور وکیل صحافی بھی تو بات میں وزن پیدا ہوجاتا ہے اور بات کو مستحکم اور مدلل انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔معروف صحافی اور نئی دنیا کے مدیر شاہد صدیقی نے اردو صحافت کے اہم کردار کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو اردو صحافت نے ہی زندہ رکھا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ یہ افسوسناک امر ہے کہ اردو اب ایلیٹ کلاس کی زبان نہیں رہی لیکن دوسرے طبقے نے اردو کو زندہ رکھا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ جنگ آزادی کے وقت پورے ملک کی زبان اردو تھی اور جنگ آزادی کی تحریک میں اردو نے ہی پورے ملک کو جوڑ رکھا تھا۔انہوں نے کہاکہ جنگ آزادی میں سب سے زیادہ امتحان اردو صحافت نے دیا ہے اور آزادی کے بعدبھی اردو صحافت ہی سب سے زیادہ امتحان دے رہی ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ آزادی سے پہلے دیگر زبان کے اخبارات انگریزوں کی کاسہ لیسی کرتے تھے، اسی طرح آزادی کے بعد بھی حکومت کے لئے کام کرتے رہے لیکن اردو صحافت ہی تھی جس نے عوام کے مسائل کو بھرپور انداز میں اٹھایا۔ انہوں نے اردو کے زندہ رہنے کی بات کرتے ہوئے کہاکہ اردو کل بھی زندہ تھی، آج بھی ہے اور کل بھی زندہ رہے گی، ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ وہ زبان مر جاتی ہے جو تبدیلی قبول نہیں کرتی اور اردو تبدیلی قبول کرنے والی زبان ہے۔پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے اردو کی بدحالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اردو والوں کی بے حسی کی وجہ سے اردو سمٹتی جارہی ہے اور حکومت سے زیادہ اردو والے اس کی بدحالی کے لئے ذمہ دار ہیں۔قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو کے سابق ڈائرکٹر پروفیسر ارتضی کریم نے کتاب کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہحسن ضیاءنے حالات کے پس منظر میں مضامین لکھے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ جو جتنا پڑھے گا انہیں اتنی ہی تشنگی محسوس ہوگی کیوں کہ معلومات کا اضافہ اس کی تشنگی میں اضافہ کرتاہے۔کتاب کے مصنف حسن ضیاءنے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں تاریخی اور پسندیدہ شخصیات پر اور دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ ماہنامہ آج کل اردو کے اداریے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے صحافت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اردو صحافت جس قدرٹیکنالوجی سے قریب ہوگی، اتنی عوامی اور مقبول ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یوجنا اور آجکل اردو کی ادارت سنبھالتے ہوئے بہت کچھ کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں جتنے بھی اردو کے ادیب یا صحافی تھے، ان میں سے بیشتر مجاہدین آزادی بھی تھے۔دیگر خطاب کرنے والوں میں سپریم کورٹ کے معروف وکیل اعجاز مقبول، معروف صحافی قربان علی، پروفیسر خالد علوی، ڈاکٹر ابرار رحمانی، جشن بہار کی کامنا پرساد شامل ہیں جب کہ معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے حسن ضیاءپر خاکہ پیش کیا اور متین امروہوی نے منظوم تہنیت پیش کی۔ اہم شرکاء میں سابق رکن پارلیمنٹ جے پی اگروال، ستیش جیکب (سابق بی بی سی) ڈاکٹر اطہر فاروقی اور انوراگ مشراشامل تھے۔معروف شاعر معین شاداب نے نظامت کے فرائض انجام دئیے جب کہ شکریہ کی رسم حسن ضیاءکی صاحبزادی سارہ ضیاءاور صاحبزادے سیف ضیاءنے ادا کی۔ (فو ٹو )
