ہفتے کے روز پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں نے آٹھ فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق تمام اہم شہروں میں ان مظاہروں اور ریلیوں کے تناظر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے ایک ترجمان نے تفصیلات بتائے بغیر کہا ہے کہ حکام پرامن مظاہرین کو گرفتار کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے راولپنڈی میں ایک عوامی مظاہرے سے خطاب کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا، ”ہم اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک چوری شدہ مینڈیٹ واپس حاصل نہیں کر لیتے۔‘‘ پی ٹی آئی حالیہ انتخابات میں 266 نشستوں میں سے 180 پر کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس جماعت کا دعویٰ ہے کہ اس کا مینڈیٹ چوری کر کے مخالف جماعتوں کو دھاندلی کے ذریعے جتوایاگیا۔
حالیہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ملک میں حکومت قائم کرنے کے لیے درکار 134 نشستیں حاصل نہ کر پانے پر اس وقت ن لیگ کی قیادت میں مختلف جماعتوں کے اشتراک سے ایک مخلوط حکومت قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
رواں ہفتے پارلیمان کے پہلے اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کے قانون سازوں نے پارلیمان کے اندر بھی احتجاج کیا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ کل اتوار تین مارچ کو ملکی نو منتخب قومی اسمبلی وزیراعظم کا انتخاب کرے گی۔ اس انتخاب میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے عمر ایوب کو نامزد کیا ہے، جب کہ ن لیگ کی قیادت میں پیپلز پارٹی سمیت اتحادی جماعتوں کے نامزد امیدوار سابق وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ اس اتحاد میںپانچ جماعتیں شریک ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے انتخابی مہم میں نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے امیدوار کے بہ طور پیش کیا جاتا رہا ہے، تاہم انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے تحت پیپلز پارٹی وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے شہباز شریف کی حمایت کرے گی۔ جب کہ پیپلز پارٹی صدارت کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری کے نام کا اعلان کر چکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کر رہی۔ صدر کے عہدے کے لیے انتخاب نو مارچ کو ہو گا۔