اس عام انتخاب میں جیت حاصل کرنے کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کتنے پراعتماد ہیں؟ اگر ان کے بیانات، میڈیا رپورٹس اور آئے دن سامنے آنے والے پبلک سروے کی بنیاد پر بات کریں تو جواب ہوگا کہ ’وہ پُراعتماد ہی نہیں بلکہ پوری طرح مطمئن ہیں‘۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے پہلے ہی وزیر اعظم نے بڑے ہی صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ لوگوں نے تو انھیں تیسری مرتبہ مینڈیٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس مرتبہ بی جے پی 2019 کی 303 سیٹوں کے مقابلے میں 370 لوک سبھا سیٹیں حاصل کرے گی اور این ڈی اے تو 400 سیٹوں کو پار کر جائے گا۔ میڈیا نے بھی بتایا کہ وزیر اعظم نے مرکزی حکومت کے سکریٹریز کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ پریزنٹیشن تیار کریں تاکہ ان کی تیسری مدت کار کے پہلے 100 دنوں کے ایجنڈے کو آخری شکل دی جا سکے۔ یکم اپریل کو آر بی آئی کی 90ویں سالگرہ پر افسران اور ملازمین کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ذرا مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ اگلے 100 دنوں کے لیے آرام کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ انتخابی تشہیر میں مصروف رہیں گے؛ لیکن حلف برداری کے ٹھیک اگلے دن سے ان کے پاس وقت نہیں ہوگا، کیونکہ ان کے پاس بہت سارا کام ہوگا۔ نئی دہلی میں تعینات نوکرشاہوں نے مانا کہ ٹاسک فورس کو ایسے اچھے پروگرام پیش کرنے کو کہا گیا ہے جنھیں اگلی حکومت نافذ کر سکے۔
ایسے زبردست اعتماد اور چاروں طرف فاتحانہ ماحول کے درمیان بھلا کوئی لیڈر ’وِکٹم کارڈ‘ کیوں کھیلنا جاری رکھے گا؟ وزیر اعظم شاید ہی کبھی یہ شکایت کرنے کا موقع چھوڑتے ہیں کہ اپوزیشن ان کے خلاف متحد ہو گیا ہے؛ کہ وہ انھیں کام نہیں کرنے دینے کے لیے پرعزم ہے؛ کہ ان کی حکومت کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ زبردست عوامی حمایت کے تئیں پُراعتماد برسراقتدار پارٹی انتخابات کے درمیان میں اپوزیشن کے خلاف جبریہ کارروائی کیوں کرے گا؟ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مدھیہ پردیش میں بی جے پی کارکنان سے ’ہر سطح‘ پر اپوزیشن کے لوگوں کو لبھانے کے لیے کیوں کہا؟ بی جے پی نے کانکنی گھوٹالے میں سالوں جیل میں گزارنے والے کاروباری جناردن ریڈی جیسے داغی لیڈران کو کیوں شامل کیا؟ یہ سبھی اشارے تو پُراعتماد ہونے کے نہیں ہیں!
45 سالوں میں سب سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں اور اس کو چھپانے کی کوششوں کے باوجود شمالی ہند کی ریاستوں میں بے روزگار سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔ اگنی ویر منصوبہ سے پیدا ہوئی گڑبڑی سے بخوبی واقف وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے نہ چاہتے ہوئے ہی سہی، یقین دلایا ہے کہ اقتدار میں لوٹنے کے بعد اس منصوبہ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے تمام طریقے کیے گئے، مثلاً پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس، یو پی اے حکومت (2014-2004) کی مدت کار پر وہائٹ پیپر، خاتون ریزرویشن بل اور سی اے اے قانون کو نوٹیفائی کرنا۔ ان سے بی جے پی کی گھبراہٹ کا پتہ چلتا ہے۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی ہلکے طریقے سے بولنے والے شخص نہیں ہیں۔ انھوں نے پورے بھروسہ کے ساتھ کہا ہے کہ بی جے پی حکومت جانے والی ہے۔ کچھ لوگ بے شک ان کا مذاق اڑائیں لیکن بڑی تعداد میں لوگ ان کی باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دے رہے ہیں۔ انھوں نے سروس میں لگے نوکرشاہوں کو اصول و ضوابط پر عمل کرنے اور اپوزیشن کے خلاف چنندہ طریقے سے ان کا استعمال کرنے سے بچنے کی بھی سخت تنبیہ کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ انتخاب کے بعد کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔
31 مارچ کو رام لیلا میدان میں ’جمہوریت بچاؤ ریلی‘ میں انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ ’وہ ای وی ایم اور میچ فکسنگ کے بغیر 180 سے زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتے۔ اگر بی جے پی دھاندلی کر کے انتخاب جیتتی ہے اور پھر آئین کو بدل دیتی ہے تو پورے ملک میں اتھل پتھل مچ جائے گی۔ میری بات یاد رکھیں، ایسی حرکتیں ملک کے وجود کو خطرے میں ڈال دیں گی۔‘ اس سے بی جے پی اتنی پریشان ہو گئی کہ اس نے انتخابی کمیشن میں نمائندہ وفد بھیج کر راہل کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم نے بھی ووٹرس سے کانگریس کو مناسب جواب دینے کی اپیل کی۔ اتراکھنڈ میں انھوں نے راہل گاندھی پر بی جے پی کے انتخاب جیتنے کی حالت میں ملک میں آگ لگا دینے کی دھمکی دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’انھیں چن چن کر صاف کر دو، ان کو میدان میں رہنے مت دو‘۔