اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی وزیر خارجہ اور دیگر باوفا ساتھیوں کے ہمراہ ہیلی کاپٹر حادثے میں المناک شہادت نے ایران سمیت پوری دنیا کو ہِلا کر رکھ دیا ہے۔ ہیلی کاپٹر حادثے کی خبر منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار بھی گرم ہو گیا، اس حوالے سے دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے، حادثے کی تین ممکنہ وجوہات میں ہیلی کاپٹر میں تکنیکی خرابی، زمینی حالات اور موسمی صورتحال شامل ہیں جبکہ بیرونی مداخلت کا امکان بھی زبان زدعام ہے، تاہم ایرانی حکام نے ابھی تک سرکاری طور پر حادثے کی وجوہات کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ یہ سانحہ مظلوموں اور مستضعفین کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے جانکاہ اور عظیم مصیبت تھا۔
موجودہ صورتحال میں جب گزشتہ چند سال میں مشرق وسطیٰ جس ہنگامہ خیز پیشرفت کا سامنا کر رہا ہے اور جس تیزی سے علاقائی منظر نامہ بدل رہا ہے، اس میں ابراہیم رئیسی کی زیر قیادت ایران کا قائدانہ کردار بہت کلیدی نوعیت کا تھا۔ شہید رئیسی اور دیگر شہداء ایران کی سرحدوں کے باہر بھی اپنا اثر رکھتے تھے۔ رئیسی کے دورِ صدارت میں نظریاتی حریف سعودی عرب سے دوطرفہ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی، ایران سفارتی سطح پر چین اور روس کے قریب آیا اور سب سے اہم امر، غزہ تنازع میں ایران نے فلسطینی عوام کی کھل کی حمایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایرانی صدر کی شہادت کے بعد سب سے بڑا سوال یہی اٹھ رہا ہے کہ ابراہیم رئیسی کے بعد اب ایران کا مستقبل کیا ہوگا اور خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیم رئیسی ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے طاقتور صدر سمجھے جاتے تھے، آیت اللہ رئیسی کو ایران کے85 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے جانشین کا درجہ حاصل تھا، کہا جا رہا تھا کہ وہ ایران کے اگلے ممکنہ سپریم کمانڈر کا اعلیٰ عہدہ سنبھالنے کیلئے موزوں ترین ہیں۔ 64 سالہ ابراہیم رئیسی نے اپنی زندگی کا ایک ایک لحظہ انقلاب اسلامی کے چمن کی آبیاری، اسلامی جمہوریہ کی سربلندی ،نظام ولایت کے ساتھ وفاداری اور محروم و غریب عوام کی بے لوث خدمت میں صرف کیا۔ انہوں نے اسلامی نظام میں بہت سارے اہم عہدوں پر رہ کر خدمت رسانی کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں آپ کو سید محرومان کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
شہید رئیسی نے اپنی زندگی میں یایوں کہیں کہ 20 سال کی عمر سے جب انہیں تہران بالمقابل واقع شہر کرج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا، جو ذمہ داری سنبھالی اس میں مثالی رہے۔ آیت اللہ رئیسی کو شہادت کے بعد خادم الرضا کے لقب سے یاد کیا گیا کیونکہ دنیا کے تقریباً سب سے بڑے مذہبی رفاہی ٹرسٹ ’آستانہ قدس رضوی‘ کے متولی کے فرائض انہوں نے بڑی ذمہ داری سے ادا کئے۔ یہ ادارہ ایران کے مشہد مقدس میں واقع حرم امام علی رضاؑ کا منتظم ہے جس کے تحت آنے والے ادارے ایران کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شہید رئیسی ایک فقیہ، عالم، مجتہد، مومن، منکسر المزاج لیکن حقیقی دشمنوں اور منافقین کے مقابلے میں بہت محکم تھے۔ وہ مطیع رہبر اور ملک و قوم کے حقیقی خدمت گزار تھے اور اس خدمت کو انھوں نے مسلسل جاری رکھا تھا۔
ایران میں جو بھی عہدہ صدارت سنبھالتا ہے اس کے سامنے پابندیوں اور محاصرے کی وجہ سے اقتصاد، معیشت اور خارجہ سیاست کے اہم ترین چیلنج ہوتے ہیں لیکن شہید آیت اللہ رئیسی نے ان تمام چیلنجوں کا بڑے دانشمندانہ انداز میں سامنا کیا اور ملک کو بحران سے محفوظ رکھا۔ ان کی صدارت کے مختصر دور میں مغرب کے ساتھ تعلقات کی سطح برقرار رکھتے ہوئے مشرق کے ساتھ تعلقات میں فروغ آیا اور ایران متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا رکن بنا۔ شہید آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی حکومت نے استقامتی تحریکوں کی ہر سطح پر مدد کی اور صیہونیوں کی مخالفت شدید تر کر دی۔
صدر ابراہیم رئیسی کی ناگہانی موت کے بعد ایران ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ تہران میں سفیر ان انقلاب کے نمازِ جنازہ کے موقع پرعوام کے جم غفیر نے صرف ملک میں سوگ کی فضا کی نشاندہی نہیں کی بلکہ عوام کے اس مجمع نے یکجہتی اور سیاسی تسلسل کی علامات کا مظاہرہ بھی کیا۔ دوسری جانب بین الاقوامی بالخصوص عرب ممالک کے رہنماوں کی جنازے میں شرکت نے مشرقِ وسطیٰ کی سفارتی بساط پر ایران کی اسٹریٹجک حیثیت کو بھی کسی حد تک مضبوط کیا۔ رئیسی کے انتقال کے بعد خطے کے اہم پاور ہاوس’ ایران‘ کے سیاسی اور اسٹرٹیجک رد عمل کو دنیا نے انتہائی قریب سے دیکھا جس کی وجہ ملک کو درپیش داخلی چینلجز اور خطے میں بڑھتے ہوئے تنازعات بالخصوص غزہ میں کئی ماہ سے جاری طویل جنگ ہے۔
ابراہیم رئیسی کی وفات کے بعد جس طرح طاقت کا خلا پیدا ہونے کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں، ایسا ہوا نہیں بلکہ ایران نے رد عمل کے طور پر نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ سپریم لیڈر نے فوراً نائب صدر محمد مخبر کو قائم مقام صدر مقرر کیا اور 28 جون کو ملک میں صدر کے انتخاب کا اعلان کر دیا ہے جو کہ ہیلی کاپٹر حادثے کے محض 39 دن بعد ہوں گے۔ جبکہ وزیر خارجہ امیر عبد للہیان کی وفات کے بعد اہم سفارتکار علی بغیری کنی کو قائم مقام وزیر خارجہ مقرر کر دیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایران ماضی میں سنگین بحرانوں کا سامنا کرچکا ہے جن سے وہ کامیابی سے نمٹا۔
ایران کی تاریخ بالخصوص 1980ء کی دہائی میں ایران-عراق جنگ میں پیش آنے والے اتار چڑھاو نے ایران کے ادارہ جاتی ڈھانچے کی مضبوطی کو ظاہر کیا۔ 30 اگست 1981ءمیں ایران کو اس وقت ایک دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب صدر محمد علی رجائی اپنے وزیراعظم محمد جواد بہونار (جو بعد ازاں نائب صدر بنے) سمیت دفتر میں ہونے والے ایک دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے نے ایران-عراق جنگ کے ابتدائی سالوں میں سیاسی منظرنامے میں طاقت کا خلا پیدا کیا۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد اعلیٰ عدلیہ کے آیت اللہ محمد بہشتی سمیت دیگر اہم سیاسی رہنما دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے واقعات، آیت اللہ خامنہ ای پر قاتلانہ حملے ملک کو عدم استحکام کا شکار کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بحران سے نمٹنے کی خصوصیت ایران کے آئین کا حصہ بن گئی جس کی وجہ سے 1989ء میں آیت اللہ خمینیؒ کے انتقال کے بعد بھی کوئی بحران کھڑا نہیں ہوا۔ ایران میں قیادت کی منتقلی کا آئینی عمل مثالی ہے۔ ماہرین کو منتخب کرکے ایک کونسل بنائی گئی ہے جو ضرورت پڑنے پر سپریم لیڈر کو منتخب بھی کرتی ہے اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹا بھی سکتی ہے۔ وقت آنے پر کونسل اپنے سپریم قانونی اختیارات کا استعمال کرے گی۔ تاریخ ایران کی ورق گردانی سے معلوم ہواکہ جب آخری بار ایران میں طاقت کی منتقلی ہورہی تھی تب آیت اللہ خمینیؒ نے خود آیت اللہ خامنہ ای کا انتخاب کیا۔ یہی وہ پہلا اورآخری موقع تھا جب ایران میں سپریم لیڈر جیسے بااختیار عہدے پر اقتدار کی منتقلی ہوئی۔
توقع کی جارہی ہے کہ قبل ازوقت ہونے والے انتخابات، ایران میں حالیہ سالوں میں ہونے والے انتخابات سے مختلف ہوں گے کہ جن میں ووٹرز کی دلچسپی اور ٹرن آوٹ انتہائی کم رہا۔ یہ انتخابات صرف ابراہیم رئیسی کا پیشرو منتخب کرنے سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔ یہ امکان کم ہے کہ ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی تبدیل ہو۔ اس کی اہم وجوہات خارجہ پالیسی کی سمت طے کرنے میں سپریم لیڈر کا مرکزی کردار اور پاسدارانِ انقلاب کا اثرورسوخ ہے۔ ابراہیم رئیسی کی انتظامیہ نے غیر مغربی ممالک کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعلقات مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی۔
اس حوالے سے مغربی میڈیا گزشتہ چند دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ کے زوال پذیر ہونے کی قیاس آرائیاں کرتا آرہا ہے۔ مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق چند برسوں تک ایران امریکی پابندیوں کی تاب نہیں لا سکے گا، تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایرانی قوم ہر چیلنج سے نبردآزما ہونے کے بعد پہلے سے مزید مضبوط بن کر ابھری ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کا عادی ہو گیا ہے اور حالیہ سانحہ کوبھی اس سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ اپنے اصولی موقف کی خاطر ایرانی قوم ایک عرصے سے قربانیاں پیش کر رہی ہے، اگرچہ صدر رئیسی اور وزیر خارجہ کی ناگہانی موت سب کیلئے مکمل طور پر غیر متوقع تھی لیکن ایران نے جس بہترین انداز میں اپنے لیڈر کو کھونے کے بعد کے حالات کو سنبھالنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ، وہ ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔
صدر رئیسی کی شہادت کی باضابطہ تصدیق ہونے سے قبل ہی آیت اللہ خامنہ ای نے یقین دہانی کرا دی تھی کہ ایرانی عوام پریشان نہ ہوں، ملکی معاملات میں کوئی خلل نہیں پڑے گا اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی سپریم کمانڈر کی جانب سے فوری طور پر نائب صدر محمد مخبر کو قائم مقام صدر نامزد کرتے ہوئے 50 دنوں کے اندر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا گیا جبکہ علی باقری نے وزارت خارجہ کا منصب سنبھال لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری سیاسی چیلنج قبل از وقت صدارتی انتخابات کا انعقاد ہے، نئے صدر کو خطے کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر مشکل حالات کا سامنا ضرور کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ایران کی حالیہ پالیسیوں کو بریک لگنے یا انکے ریورس ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)