مزید تین ہزار سے زائد افراد زخمی، امدادی کارروائیاں مشکلات کا شکار
کا بل 02 اگست:(ایجنسی) افغان حکام کے مطابق افغانستان میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 1124 ہو گئی ہے، جبکہ تین ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ زلزلہ پیر اور منگل کی درمیانی شب آیا تھا جس نے بڑے پیمانے پر ملک میں تباہی مچا دی تھی۔اگرچہ زلزلے کی شدت صرف چھ درجے ریکارڈ کی گئی، لیکن اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے سوالات کو جنم دیا۔ مقامی حکام نے وضاحت کی کہ دشوار گزار پہاڑی علاقے اور خراب موسم نے امدادی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا، جبکہ کچی اینٹوں سے بنے گھروں کی تباہی نے جانی نقصان میں اضافہ کیا۔لبنانی ماہر ارضیات طونی نمر نے بتایا کہ زلزلے کے اس قدر مہلک ثابت ہونے کی بڑی وجہ متاثرہ علاقے کی غیر مضبوط زمینی پرتیں ہیں، جن کی وجہ سے زلزلے کی لہریں عمارتوں پر زیادہ تباہ کن اثر ڈالتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمزور تعمیرات نے بھی ہلاکتوں کی شرح بڑھانے میں کردار ادا کیا۔افغان حکام کے مطابق امدادی ٹیمیں مشرقی صوبہ کنڑ کی دور دراز بستیوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سربراہ احسان اللہ احسان نے بتایا کہ پیر کے روز چار دیہات میں کارروائیاں کی گئیں، تاہم اب ٹیموں کی توجہ مزید دور دراز پہاڑی علاقوں تک پہنچنے پر مرکوز ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زیر ملبہ مزید لاشوں کے بارے میں درست اندازہ لگانا ممکن نہیں، لیکن کوشش ہے کہ جلد از جلد ریسکیو آپریشن مکمل کر کے متاثرہ خاندانوں تک امداد پہنچائی جائے۔یہ زلزلہ افغانستان کی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے، جس نے ہزاروں افراد کو متاثر کیا ہے۔افغانستان میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب آنے والے تباہ کن زلزلے سے غیر معمولی نقصان کی اطلاعات کا سلسلہ جاری ہے۔ مواصلاتی اعتبار سے کمزور انفراسٹرکچر کی وجہ سے زلزلے کے اثرات کی اطلاعات بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔یاد رہے اتوار اور پیر کی درمیانی شب آنے والے اس خوفناک زلزلے کی رچر سکیل پر شدت 6.0 تھی اور یہ حالیہ برسوں کے دوران اس علاقے کا شدید ترین زلزلہ تھا۔ایک افغان گاؤں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس میں رہنے والا کوئی خاندان بھی ایسا نہیں جس کا کوئی نہ کوئی جانی یا مالی نقصان نہ ہوا ہو۔ اس گاؤں میں رہنے والی گھریلو خواتین زلزلے سے گرنے والی چھتوں اور دیواروں کے نیچے آ کر ہلاک ہو گئیں یا زخمی ہو گئیں۔ جبکہ اکثر گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔اس دوران وقفے وقفے سے لگنے والے جھٹکے ‘ آفٹر شاکس، بھی جاری ہیں۔جبکہ ابھی تک تک گاؤں میں انسانی لاشوں کے علاوہ مرے ہوئے جانور بھی بکھرے پڑے ہیں۔ چاروں طرف گھروں کا ٹوٹا پھوٹا سامان اور چھتیں یا دیواریں ٹکڑوں کی شکل میں بٹی پڑی ہیں۔ایک 55 سالہ شہری گل محمد رسولی جو خود بھی زلزلے کے وجہ سے زخمی ہیں نے ‘اے ایف پی، سے بات کرتے ہوئے کہا کوئی بھی گھر ایسا نہیں ہے جس میں کوئی ہلاک یا زخمی نہ ہوا ہو۔ لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ایک پہاڑ کے نزدیک ملبے کے نیچے دبی زخمی خاتون کو ملبے سے ‘ریسکیو ورکرز ‘ نے نکالا تو اس نے بتایا کہ اس کے دو بچے بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔”ریسکیو ورکرز” کی کوشش ہے کہ سب سے پہلے زخمیوں کو نکالیں تاکہ مزید جانی نقصان ہونے سے بچائیں۔مقامی لوگوں نے بتایا جب زلزلہ آیا تو اکثریت لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے اس لیے انہیں بچنے کے لیے گھروں سے نکل بھاگنے کا بھی موقع نہ مل سکا ۔ان زخمی اور بے گھر ہوچکے لوگوں کے ان ملبے کا ڈھیر بنے گھروں پر ہر پندرہ منٹ بعد ایک ہیلی کاپٹر خوراک کے تھیلے اور روٹیاں لے کر آتا ہے۔ تاکہ متاثرہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ یہ ہیلی کاپٹر عام طور پر طالبان کی فوج کی ملکیت ہوتے ہیں جو انہیں عوام کی ہنگامی ضروریات کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں۔پہاڑی علاقوں میں سڑکوں کی صورت حال افغانستان میں اچھی نہیں ہیں۔ اب بارشوں اور زلزلے کی وجہ سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ سے زمینی سفر مزید مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے ہیلی کاپٹر بہترین ذریعہ نقل و حمل بن گیا۔



