نیتنیاھو کا دعویٰ:ایران کے جوہری پروگرام کو برسوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے
تل ابیب 13 جو لا ئی (ایجنسی) اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا ہے کہ حزب اللہ اور اس سے وابستہ گروہوں کی شکست کے بعد ایران نے یورینیئم کی افزودگی کے عمل میں تیزی لائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کئی برسوں تک تہران کے جوہری منصوبے میں پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔نیتن یاھو نے یہ بات امریکی نشریاتی ادارے “فاکس نیوز” کو ہفتے کے روز ایک انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھاکہ “ہم ایران کے ایٹمی پروگرام کو سالوں تک مؤخر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، مگر ہم ایسا کوئی معاہدہ قبول نہیں کریں گے جس میں یورینیئم کی افزودگی کا حق شامل نہ ہو”۔ادھر ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی کے لیے کچھ نکات کا جائزہ لے رہا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنی عسکری صلاحیتوں، بالخصوص بیلسٹک میزائل پروگرام پر کسی بھی صورت بات چیت نہیں کرے گا۔عباس عراقچی نے تہران میں غیر ملکی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ “ایران ہر حال میں اپنی عسکری صلاحیتوں کو برقرار رکھے گا اور یہ صلاحیتیں کسی بھی مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گی”۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایران کا یورینیئم کی افزودگی کا حق ہر ممکن معاہدے کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ ان کے بہ قول “ایسا کوئی معاہدہ قبول نہیں کریں گے جس میں افزودگی کا حق شامل نہ ہو”۔عباس عراقچی نے خبردار کیا کہ ایران کے خلاف دوبارہ عالمی پابندیاں عائد کرنے کے لیے “زناد” (Snapback) میکانزم کو فعال کرنے کا اقدام یورپی کردار کے اختتام کا باعث بنے گا۔12 روزہ جنگ اور امریکی مداخلتواضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر فضائی حملے کیے، جن میں ایرانی فوجی اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں کئی اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدان ہلاک ہوئے۔ایران نے جوابی کارروائی میں اسرائیل پر ڈرون اور میزائل داغے۔ اس کے بعد 22 جون کو امریکہ بھی تنازع میں کود پڑا اور اس نے تہران کے جنوب میں واقع فردو کے زیر زمین یورینیئم افزودگی مرکز اور اصفہان و نطنز میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔تاحال ان حملوں سے ہونے والے نقصان کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئیں، تاہم ایران نے جوابی حملے میں قطر اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، مگر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 24 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا۔مذاکرات کی معطلی اور اختلافات کی خلیجیہ جنگ امریکہ اور ایران کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کی معطلی کا سبب بنی، جو رواں سال اپریل میں شروع ہوئے تھے۔ مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر کسی معاہدے تک پہنچنا اور اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ تھا۔مذاکرات اس نکتے پر آ کر رک گئے کہ آیا ایران کو یورینیئم افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ ایران اپنے اس حق پر بضد ہے، جبکہ امریکی انتظامیہ اسے “سرخ لکیر” قرار دیتی ہے۔یورپی ممالک بھی ایران کے ساتھ جوہری تنازع پر اختلافات کے باعث 2015 ءکے معاہدے میں شامل “زناد” میکانزم کو فعال کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں، جس کے تحت ایران پر دوبارہ عالمی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے مطابق ایران وہ واحد غیر جوہری ملک ہے جو 60 فیصد تک یورینیئم افزودہ کر رہا ہے، حالانکہ 2015ء کے معاہدے میں یہ حد صرف 3.67 فیصد مقرر کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے یورینیئم کو 90 فیصد تک افزودہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔



