اس اعلان سے اسرائیل پر دباؤ کا نیا دروازہ کھل سکتا ہے
اقوامتحدہ 22 اگست (ایجنسی) اسرائیلی اخبار یدیعوت آحرونوت کے مطابق عالمی سطح پر بھوک کی نگرانی کرنے والی اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم (IPC) آج جمعہ کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں اعلان کرے گی کہ غزہ میں قحط پھوٹ چکا ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب جنگ کے لگ بھگ 22 ماہ بعد اس طرح کا اعلان سامنے آ رہا ہے۔اخبار کے مطابق اس اعلان سے اسرائیل پر نئے بین الاقوامی دباؤ کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے الزام لگایا ہے کہ تنظیم نے معیارات میں تبدیلی کی ہے تاکہ ان کے مطابق حماس کے “بیانیے” کو تقویت دی جا سکے۔ادھر اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے باعث امداد کے داخلے میں رکاوٹ اور فوجی حملوں کے بڑھنے سے پورا غزہ قحط کے خطرے سے دوچار ہے، جس کے نتیجے میں مزید فلسطینی بے گھر ہونے پر مجبور ہیں۔یہ اعلان “انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن سسٹم (IPC)” کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے، جو عالمی سطح پر غذائی عدم تحفظ اور کمی کی شدت کی درجہ بندی کے لیے تسلیم شدہ طریقہ کار ہے۔ سال 2004 میں اس کے قیام کے بعد سے اب تک صرف چار بار قحط کے اعلان کے لیے اس کا استعمال ہوا ہے، جن میں تازہ ترین مثال گزشتہ برس سوڈان ہے۔اسرائیلی اخبار کے مطابق یہ اعلان غزہ ضلع پر لاگو ہو گا، جہاں غزہ شہر، تین قصبے اور متعدد پناہ گزین کیمپ شامل ہیں اور تقریباً پانچ لاکھ افراد آباد ہیں۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو موصول ہونے والی معلومات میں کہا گیا ہے کہ “غزہ کی پٹی میں پانچ لاکھ سے زائد افراد بھوک، فاقہ کشی اور موت کی تباہ کن صورت حال میں جی رہے ہیں۔”پہلے اسی نظام نے خبردار کیا تھا کہ کچھ علاقوں میں قحط کا خطرہ قریب ہے، مگر مصدقہ اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے با ضابطہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اب حالیہ آگاہی کے مطابق قحط کے اعلان کے تینوں معیار پورے ہو چکے ہیں : کم از کم 20 فی صد گھرانے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، کم از کم 30 فی صد بچے شدید غذائی کمی میں مبتلا ہیں اور ہر 10 ہزار میں سے روزانہ دو افراد بھوک کے باعث مر رہے ہیں۔توقع ظاہر کی گئی ہے کہ ستمبر کے اختتام دیر البلح اور خان یونس بھی قحط کی لپیٹ میں آ جائیں گے، جبکہ غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی یعنی 10 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد “ہنگامی” سطح کے غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں 13 لاکھ 50 ہزار افراد کو فوری طور پر ہنگامی پناہ گاہوں کی ضرورت ہے، کیونکہ بار بار کی بے دخلی اور سخت موسمی حالات کی وجہ سے خیمے ناکارہ ہو چکے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ترجمان ثمین الخیطان نے جنیوا میں کہا “یہ صورت حال براہِ راست اسرائیلی حکومت کی پالیسی کا نتیجہ ہے جو امدادی سامان کی ترسیل میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔” ان کے مطابق حالیہ ہفتوں میں غزہ میں داخل ہونے والی امداد “قحط کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درکار مقدار سے کہیں کم” ہے۔الخیطان نے بتایا کہ بھوک سے متعلق اموات بدستور ریکارڈ کی جا رہی ہیں، جن میں بچوں کی اموات بھی شامل ہیں۔ دریں اثنا اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں حملے تیز کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ایک بار پھر المواصی کی طرف نکلنے کے احکامات دیے ہیں، حالانکہ وہاں بم باری اور ابتر حالات بدستور جاری ہیں۔الخیطان کے مطابق المواصی میں موجود لاکھوں بے گھر افراد خوراک، پانی، بجلی اور پناہ گاہ سے محروم ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امداد تک رسائی “جان لیوا” ہو سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 27 مئی کے بعد سے 1,857 فلسطینی خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں مارے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کو اسرائیلی فوج نے اس وقت گولی ماری جب وہ “غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” کے مقامات یا امدادی ٹرکوں کے راستوں کے قریب موجود تھے۔



