کانگریس نے ہفتہ کے روز وزیر اعظم مودی سے کازیرنگا نیشنل پارک کے دورے کے پس منظر میں شمال مشرق کی صورتحال کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے اور دعویٰ کیا کہ شمال مشرق کے مختلف حصوں میں عدم استحکام اور بدامنی بڑھ رہی ہے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے پوچھا کہ وزیر اعظم کو تشدد سے متاثرہ منی پور کا دورہ کرنے کا وقت کیوں نہیں ملا؟ خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی نے ہفتہ کی صبح آسام کے کازرنگا نیشنل پارک اور ٹائیگر ریزرو میں ہاتھی اور جیپ سفاری کی تھی۔
جے رام رمیش نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا، ’’ہمیں خوشی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اپنے مختلف دوروں کلے درمیان آج صبح کازیرنگا کے لیے وقت نکالا جو جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کی دلچسپی کی وجہ سے ایک مشہور نیشنل پارک ہے۔ کانگریس لیڈر نے دعویٰ کیا کہ شمال مشرق کے مختلف حصوں میں عدم استحکام اور بدامنی بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم کے شمال مشرق کے دورے کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’’19 جون 2020 کو چین کے بارے میں آل پارٹی میٹنگ میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ایک بھی چینی فوجی ہندوستانی علاقے میں داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’وزیر اعظم نے عوامی سطح پر چین کو ’کلین چٹ‘ دے کر اور چینی جارحیت کے بعد جمود کو بحال کرنے کے لیے کارروائی کرنے میں ناکام رہ کر ہاتھ باندھ لیے ہیں۔ چینی فوجی ہندوستانی شہریوں کو چاراگاہوں تک جانے سے روک رہے ہیں اور ہندوستانی گشتی پارٹی کو ایل اے سی (لائن آف ایکچوئل کنٹرول) کے ساتھ اسٹریٹجک مقامات تک جانے سے روک رہے ہیں، جہاں ان کی پہلے بلا روک ٹوک رسائی تھی۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ایل اے (پیپلز لبریشن آرمی) کے سپاہیوں کے ذریعہ ہندوستانی سرزمین پر ہندوستانی شہریوں کے اغوا کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
جے رام رمیش کے مطابق، “2022 میں اروناچل پردیش (تاپیر گاؤں) سے بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے خود الزام لگایا تھا کہ پی ایل اے نے 19 سالہ میرام تارون کو اغوا کیا اور اسے 10 دن تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایٹا نگر میں ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی نے تپور پلوم کے خاندان سے بھی ملاقات کی، جو 2015 میں پی ایل اے کے ذریعہ مبینہ طور پر اغوا کیے جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔
انہوں نے پوچھا، ’’مودی جی، کیا آپ بھول گئے؟‘‘ کیا آپ اس وقت لوگوں سے جھوٹ بول رہے تھے؟” کانگریس جنرل سکریٹری نے کہا، “منی پور میں تقریباً ایک سال سے خانہ جنگی جیسی صورتحال ہے، شدید تشدد میں سینکڑوں لوگ مارے گئے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، برادریوں کے درمیان پرتشدد تنازعہ جاری ہے اور انتظامیہ منہدم ہو چکی ہے۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا، ’’منی پور میں تشدد کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ 7 مارچ کو مورے میں دو نوجوانوں کو مارا پیٹا گیا اور 8 مارچ کو تھوبل ضلع میں ملی ٹینٹوں نے ہندوستانی فوج کے جونیئر کمیشنڈ آفیسر (جے سی او) کونسم کھیڑا سنگھ کو ان کے گھر سے ہی اغوا کر لیا۔
جے رام رمیش نے سوال کیا، “وزیر اعظم، جو عام طور پر ٹیکس دہندگان کے پیسے کا ملک بھر میں انتخابی مہم چلانے کے لیے غلط استعمال کرتے ہیں، کو ابھی تک منی پور جانے یا ریاست کے وزیر اعلیٰ اور سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کا وقت کیوں نہیں ملا؟ کیا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ہندوستانی عوام ان کے لیے امپھال کا ٹکٹ خریدیں؟‘‘
جے رام رمیش کے مطابق، ’’مشرقی ناگالینڈ پیپلز آرگنائزیشن (ای این پی او) نے ‘فرنٹیئر ناگالینڈ’ کی تعمیر میں تاخیر کے خلاف احتجاج کے لیے مشرقی ناگالینڈ میں عوامی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی مہم چلانے یا الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ کونیاک یونین اور تکیر قبائلی کونسل نے ای این پی او کے عوامی ایمرجنسی کے اعلان کا اعادہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’مشرقی ناگالینڈ کا بیشتر حصہ 8 مارچ کو بند تھا۔ حالات دن بدن کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور ناگالینڈ میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت میں خلل پڑنے کا خطرہ ہے لیکن مرکزی حکومت کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے پہلے ہی مودی حکومت کو 2015 کے ناگا معاہدے کے ساتھ ناگالینڈ کی سیاسی صورتحال کو پیچیدہ بناتے ہوئے دیکھا ہے، جسے عوام کے لیے جاری بھی نہیں کیا گیا، اس پر عمل درآمد تو دور کی بات! جے رام رمیش نے پوچھا کہ مودی حکومت آج مشرقی ناگالینڈ میں پیدا ہونے والی صورتحال کو پرسکون کرنے کے لیے کیا قدم اٹھا رہی ہے؟
انہوں نے دعویٰ کیا، ’’دسمبر 2023 میں کچھار میں پتھر کی کان میں کام کرنے والے تین مزدوروں کو زیلیانگرونگ یونائیٹڈ فرنٹ نے اغوا کر لیا تھا۔ پچھلے مہینے فروری کے وسط میں آسام-اروناچل پردیش سرحد پر چانگلانگ ضلع میں فنبورو کوئلہ کان میں کام کرنے والے 10 مزدوروں کو نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ (این ایس سی این) اور یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام انڈیپنڈنٹ (الفا-1) نے اغوا کر لیا تھا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ علیحدگی پسند گروہ عام لوگوں کی زندگیوں کو درہم برہم کرنے اور دہشت کا راج قائم کرنے کے لیے دوبارہ ابھر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ علیحدگی پسند تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے کے لیے مودی حکومت کی کیا حکمت عملی ہے؟