برطانیہ میں حالیہ دنوں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو ’نفرت مارچ‘ قرار دینے پر برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
لندن اور دیگر برطانوی شہروں میں مسلسل تین ویک اینڈز سے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پولیس نے سنیچر کو پانچ افراد پر مقدمہ درج کرنے کی تصدیق کی تھی۔
عرب نیوز کے مطابق سویلا بریورمین نے کہا کہ ’میرے خیال میں ان مظاہروں کو بیان کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ یہ نفرت مارچ ہیں۔‘
برطانوی وزیر داخلہ نے کہا ’گذشتہ چند ہفتوں سے ہم نے دیکھا کہ ہولوکاسٹ یہودیوں کے سب سے بڑے قتل عام کے بعد ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور نقشے سے اسرائیل کے خاتمے کے نعرے لگاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو تشویش ہے کہ ’غلط عناصر بڑی تعداد میں جان بوجھ کر پس پردہ ایسے کام کر رہے ہیں جنہیں آپ، میں یا برطانوی لوگ نفرت انگیز سمجھتے ہیں۔‘
فلسطینیوں کے حقوق لیے کام کرنے والی تنظیم سولیڈیرٹی کمپین (پی ایس سی) کے ترجمان نے سویلا بریورمین کے تبصرے پر کہا کہ ’بریورمین نے پہلے فلسطینی قومیت کی علامت اور فوجی قبضے اور نسل پرستی سے آزادی کی جدوجہد سمجھے جانے والے فلسطینی پرچم کو دہشت گردی کی حمایت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اور پولیس پر زور دیا کہ وہ اس پرچم کو بلند کرنے والوں کے ساتھ مشتبہ افراد جیسا برتاؤ کریں۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ مظاہروں میں گونجنے والے نعرے ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا‘ کا وزیر داخلہ نے غلط مطلب نکالا ہے کہ یہ اسرائیلی یہودیوں کے خاتمے کا مطالبہ ہے، حالانکہ یہ نسل پرستی کے نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ ہے جس سے تمام فلسطینی متاثر ہوتے ہیں، چاہے وہ غزہ ہو، مغربی کنارہ یا اسرائیل۔
پی ایس سی کے ترجمان کے مطابق ’ایسا کرنے سے وہ (وزیر داخلہ) عدم برداشت کے ماحول کو فروغ دے رہی ہیں، برطانوی فلسطینیوں سمیت فلسطینیوں کو غیر انسانی قرار دے رہی ہیں اور اس ملک میں احتجاج کے حق کو مزید خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ ان کے تبصرے کی ہر وہ شخص مذمت کرے گا جو جمہوری آزادیوں، بین الاقوامی قانون کے نفاذ اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے۔‘
تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جاری رکھے گی اور اسے یقین ہے کہ لاکھوں برطانوی شہری اس میں شرکت کریں گے۔