کچھ لوگ اسے جنگ کہتے ہیں اور کچھ دہشت گردی، یہ دہشت گردی ہے : پوپ فرانسس
مسیحیوں کے سب سے بڑے پوپ فرانسس نے غزہ میں قائم کیتھولک مسیحیوں کے لیے واحد چرچ سے تعلق رکھنے والی دو مسیحی خواتین کو ہلاک کرنے پر مذمت کی ہے۔ یہ دونوں مسیحی خواتین ماں بیٹی تھیں۔
دونوں کو اسرائیلی فوج کے سنائپرز نے اس وقت تاک کر مارا جب دونوں ماں بیٹیاں کانوینٹ جارہی تھیں۔ ایک کو نشانہ بنایا گیا تو دوسری اسے بچانے کے لیے آگے بڑھی، اسرائیلی فوجیوں نے اسے بھی تاک کر ہدف بنایا اور گولی مار دی۔ ان دوں کے کے علاوہ سات افراد کے مزید زخمی ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ محض تین دنوں کے دوران یہ دوسرا واقعہ ہے کہ اسرائیل کے حق دفاع کی بات کرنے والوں نے بھی اسرائیلی فوج کی پیشہ ورانہ اہلیت اور دہشت گردانہ اندھے پن پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔
واضح رہے اسرائیل نے اپنی فوج کے ان ریزروز کی بڑی تعداد غزہ میں تعینات کر رکھی ہے جسے محدود مدت کی تربیت کے ساتھ جنگ میں اتار کر صرف مرنے اور مارنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ان کی فوجی اخلاقیات بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں پچھلے اڑھائی ماہ سے سوالات کھڑے ہورہے ہیں کہ یہ بچوں اور عورتوں کو بطور خاص نشانہ بناتے ہیں اور جنگ کے بین الاقوامی قوانین کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ انہی کی حماس سے خوفزدگی کی وجہ سے پہلے تین اسرائیلی یرغمالی اور اب دو مسیحی خواتین نشانہ بنی ہیں۔
یہ دونوں مسیحی خواتین غزہ جنگ کے شروع میں ہی اسرائیلی بمباری کی وجہ سے چرچ میں پناہ لینے والے دوسرے مسیحیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ جہاں یہ بھی اسرائیلی جنگ کا شکار ہو گئیں۔ ہلاک ہونے والی دونوں خواتین کے نا، ناہیدہ اور ثمر بتائے گئے ہیں۔
پوپ فرانسس نے غزہ میں جاری جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ۔ کچھ لوگ اسے جنگ کہتے ہیں اور کچھ دہشت گردی، یہ دہشت گردی ہے جس کا شکار ہولی فیملی کی دو خواتین بنی ہیں۔ ہمیں چاہیے ہم امن کے خدا سے دعا کریں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پوپ نے بہت جذباتی انداز میں غزہ جنگ کا ذکر کیا ہے۔ یاد رہے اب تک اسرائیلی بمباری کے باعث 19000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں زیادہ فلسطینی عورتیں اور کم سن فلسطینی بچے ہیں۔
جبکہ اسرائیل اور اس کی جنگ کو حق دفاع کا نام دینے والے ہر مرحلے پر جنگ بندی کے خلاف کھڑے ہوئے ہی