Tuesday, December 16, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 958

ایودھیا میں بی جے پی کو شکست دینے والے سماجوادی پارٹی کے ایم پی کو جان کا خطرہ، زیڈ پلس سیکورٹی کا مطالبہ

0

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اگر کسی سیٹ کے نتیجے پر سب سے زیادہ بات ہو رہی ہے تو وہ فیض آباد لوک سبھا کی سیٹ ہے۔ اسی حلقے میں ایودھیا بھی ہے جہاں رام مندر کی تعمیر کی گئی ہے اور جس کی بنیاد پر بی جے پی کی پوری سیاست قائم ہے۔ اس سیٹ کا سب سے زیادہ ذکر اس لیے ہو رہا ہے کہ یہاں کے لوگوں نے بی جے پی کے امیدوار کو شکست فاش دیتے ہوئے سماجواودی پارٹی کے امیدوار کو زبردست اکثریت سے کامیاب کیا ہے۔

فیض آباد لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی نے اپنے سیٹنگ ایم پی للو سنگھ کو ٹکٹ دیا تھا جبکہ سماجوادی پارٹی نے اودھیش پرساد کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔ بی جے پی سمجھتی رہی ہے کہ رام مندر کی وجہ سے فیض آباد لوک سبھا کے رائے دہندگان اسے ووٹ دیں گے لیکن لوگوں نے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کوبھاری اکثریت سے کامیاب بنایا۔ اس کامیابی کے بعد سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور بی جے پی کو ہرانے پر لوگ فیض آباد کے رائے دہندگان کوبرا بھلا کہہ رہے ہیں۔

ان دھمکیاں دینے والوں کے نشانے پر سماجوادی پارٹی کے نومنتخب رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد بھی ہیں۔ ان کو ملنے والی دھمکی کے پیشِ نظر سماج وادی چھاتر سبھا کے قومی جنرل سکریٹری منوج پاسوان نے یوپی کے ایڈیشنل چیف سکریٹری برائے داخلہ کو لکھے گئے خط کر زیڈ پلس سیکورٹی کا مطالبہ کیا ہے۔

خبروں کے مطابق اپنے خط میں منوج پاسوان نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا سمیت دیگر مواصلاتی ذرائع سے ایودھیا کے لوگوں کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ان کے ساتھ کسی بھی وقت کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔

یوپی کے ایڈیشنل چیف سکریٹری برائے داخلہ کو لکھے گئے خط میں منوج پاسوان نے مزید کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ لہذا سیکورٹی کے نقطہ نظر سے اودھیش پرساد کو زیڈ پلس سیکورٹی فراہم کی جانی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں سماجوادی پارٹی نے ریاست میں 37 سیٹیں اور انڈیا الائنس کے ساتھ مل کر 43 سیٹیں جیت کر بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

مودی کی وزارتی کونسل میں شامل نہیں ہوئی این سی پی، اجیت پوار نے کہا- ’کابینہ سے کم کچھ بھی قابل قبول نہیں!‘

0

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے عہدہ اور رازداری کا حلف اٹھا لیا ہے اور ان کے ساتھ 71 وزرا نے بھی حلف اٹھا لیا۔ اجیت دھڑے کی این سی پی سے کوئی وزیر وزارتی کونسل میں شامل نہیں ہوا۔ این ڈی اے میں دراڑ کی خبروں کے درمیان این سی پی (اجیت پوار) نے خود کہا ہے کہ وہ فی الحال کابینہ میں شامل نہیں ہو رہی۔ این سی پی سے پرفل پٹیل کو وزیر مملکت (آزادانہ چارج) کا عہدہ دینے کی بات چل رہی تھی لیکن انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔

بی جے پی کی حلیف پارٹیوں کے تمام بڑے لیڈروں کو وزیر کے طور پر حلف لینے کے لیے کال کی گئی۔ جن لوگوں کو کال موصول ہوئی وہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر نریندر مودی سے بھی ملے۔ اسی دوران خبر آئی تھی کہ این ڈی اے کی حلیف این سی پی میں کابینہ وزیر کے عہدے کو لے کر لڑائی شروع ہو گئی ہے۔

بعد میں این سی پی نے صاف کیا کہ وہ مرکزی کابینہ میں وزیر مملکت (آزادانہ چارج) کے عہدے کے بجائے وزارتی عہدہ چاہتی ہے۔ اس بار میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے اجیت پوار نے کہا کہ ہمیں آزادانہ چارج کے ساتھ وزیر مملکت کے بارے میں معلومات ملی ہیں لیکن پرفل پٹیل خود اس سے قبل حکومت ہند کے کابینہ وزیر رہ چکے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے ہمیں اطلاع دی لیکن ان کے لیے یہ عہدہ سنبھالنا قدرے مشکل ہے۔ جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں وہ غلط ہیں، ہم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘

وہیں، این سی پی لیڈر پرفل پٹیل نے بھی کہا، ’’اتحاد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مجھے آزادانہ چارج کے ساتھ وزیر مملکت کے عہدے کے لیے اطلاعات موصول ہوئی ہیں لیکن میں پہلے ہی کابینہ میں وزیر تھا، اس لیے میں نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس حوالے سے اتحاد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘

مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی اور این سی پی کے سربراہ اجیت پوار کا کہنا ہے، ’’ہم نے ان (بی جے پی) سے کہا کہ ہم اس کے لیے کچھ دن انتظار کریں لیکن ہمیں کابینہ کی وزارت چاہیے۔ ہم آج حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’آج ہمارے پاس ایک لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا ممبر ہے، لیکن اگلے 2-3 ماہ میں ہمارے پاس کل 3 ممبران ہوں گے۔ راجیہ سبھا اور پارلیمنٹ میں ہمارے ممبران کی تعداد 4 ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں (کابینہ کی وزارت) کی نشست دی جائے۔‘‘

مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے کہا کہ، ہم این سی پی کو وزیر مملکت کا آزادانہ چارج دینے کے لیے تیار تھے اور پرفل پٹیل کا نام ہمارے لیے حتمی تھا، کیونکہ وہ پہلے بھی وزیر تھے۔ لیکن این سی پی کابینہ چاہتی تھی، اس لیے انہوں نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا اور ہمیں بتایا کہ اگلی توسیع میں آپ جب چاہیں دے سکتے ہیں، لیکن ہمیں کابینہ دیں۔

اس سے پہلے یہ خبر آئی تھی کہ این ڈی اے کی حلیف این سی پی میں کابینہ وزیر کے عہدے کو لے کر لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایک وزارتی عہدہ این سی پی کے کھاتے میں چلا گیا ہے، جس کی وجہ سے پارٹی کے دو سینئر لیڈروں پرفل پٹیل اور سنیل تٹکرے کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے ہیں۔ دونوں لیڈروں نے مودی حکومت میں این سی پی کو دیے جانے والے کابینی وزیر کے عہدے پر دعویٰ کیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے دعوے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

نتیش-نائیڈو والی مودی کی گارنٹی سے بی جے پی کو دھوکہ ملے گا، سبرامنیم سوامی کا نریندر مودی پر حملہ

0

نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت سازی اپوزیشن لیڈران کی سخت تنقیدوں کے دوران بی جے پی کے اندر سے بھی مخالفت کی آواز بلند ہوئی ہے۔ یہ آواز بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی ہے جنہوں نے نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کے حوالے سے مودی کی گارنٹی سے بی جے پی کو دھوکہ ملے گا۔

سبرا منیم سوامی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا ہے کہ ’مودی کی نائیڈو-نتیش کی گارنٹی؟ دھوکہ یقینی طور پر بھارتیہ جنتا کو۔‘ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رہے سبرامنیم سوامی چھ بار کے رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بی جے پی کے لیڈر ہیں اور وقتاً فوقتاً نریندر مودی پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے نتائج کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی کو اکثریت نہ ملنا بڑا نقصان ہے۔

’فال آف مودی اینڈ فیوچر رائیز آف بی جے پی‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سینٹرلائز کر رکھا ہے۔ پارٹی کے اندر انتخابات نہیں ہوتے ہیں۔ نریندر مودی نے خود مختاری کا طریقہ اپناتے ہوئے سبھی کو سائیڈ لائن کر دیا ہے۔ انہوں نے جو سسٹم بنا رکھا ہے اس میں صرف ’سائیکو فین‘ ہی زندہ رہ سکیں گے۔

نریندر مودی نے تیسری مرتبہ ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا

0

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اب 18ویں لوک سبھا کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا ہے اور نریندر مودی نے راشٹرپتی بھون میں منعقدہ حلف برداری تقریب کے دوران تیسری بار وزیر اعظم کا حلف لے لیا۔ انہیں صدر دروپدی مرمو نے عہدہ اور رازداری کا حلف دلایا۔ ان کی کابینہ میں شامل ہونے والے وزرا نے بھی عہدہ اور رازداری کا حلف لیا، جن میں راج ناتھ سنگھ، امت شاہ، نتن گڈکری اور جے پی نڈا شامل ہیں۔

حلف برداری کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تیاریاں کی گئی ہیں۔ بی جے پی کے تمام اتحادیوں کے سینئر لیڈران کو وزیر کے طور پر حلف لینے کے لیے کال کی گئی ہے۔ جن لوگوں کو کال موصول ہوئی ہے انہوں نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر نریندر مودی سے بھی کی۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کو حلف برداری کے پروگرام کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ کھڑگے نے بھی حلف برداری میں شرکت کی۔

ہندوستان کے پڑوسی ممالک کے رہنما وزیر اعظم اور ان کی وزراء کونسل کی تقریب حلف برداری میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس تقریب میں مالدیپ کے صدر محمد موئیزو، سری لنکا کے صدر رانیل وکرما سنگھے، سیشلز کے نائب صدر احمد عفیف، ماریشس کے وزیر اعظم پراوِند کمار جگناوتھ، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ، نیپال کے وزیر اعظم پشپا کمل دہل ‘پرچنڈ’ اور بھوٹان کے وزیر اعظم شیرنگ ٹوبگے نے شرکت کی۔

حلف لینے والے وزراء کی مکمل فہرست

گجرات: امیت شاہ، ایس جے شنکر، منسکھ منڈاویہ، سی آر پاٹل، نیمو بین بمبھانیا۔

ہماچل پردیش: جے پی نڈا۔

اوڈیشہ: اشونی ویشنو، دھرمیندر پردھان، جول اورام۔

کرناٹک: نرملا سیتارامن، ایچ ڈی کماراسوامی، پرہلاد جوشی، شوبھا کرندلاجے، وی سومنا۔

مہاراشٹر: پیوش گوئل، نتن گڈکری،پرتاپ راؤ جادھو، رکشا کھڈسے، رام داس اٹھاولے، مرلیدھر موہول۔

گوا: شریپد نائک، جموں و کشمیر، جتیندر سنگھ۔

مدھیہ پردیش: شیوراج سنگھ چوہان، جیوترادتیہ سندھیا، ساوتری ٹھاکر، ویریندر کمار۔

اتر پردیش: ہردیپ سنگھ پوری، راج ناتھ سنگھ، جینت چودھری، جتن پرساد، پنکج چودھری، بی ایل ورما، انوپریہ پٹیل، کملیش پاسوان، ایس پی سنگھ بگھیل۔

بہار: چراغ پاسوان، گریراج سنگھ، جیتن رام مانجھی، رام ناتھ ٹھاکر، لالن سنگھ، نریانند رائے، راج بھوشن، ستیش دوبے۔

اروناچل پردیش: کرن رجیجو۔

راجستھان: گجیندر سنگھ شیخاوت، ارجن رام میگھوال، بھوپیندر یادو، بھگیرتھ چودھری۔

ہریانہ: ایم ایل کھٹر، راؤ اندرجیت سنگھ، کرشنا پال گوجر۔

کیرالہ: سریش گوپی، جارج کورین۔

تلنگانہ: جی کشن ریڈی، بنڈی سنجے۔

تمل ناڈو: ایل مروگن۔

جھارکھنڈ: سنجے سیٹھ، اناپورنا دیوی۔

چھتیس گڑھ: ٹوکھان ساہو۔

آندھرا پردیش: ڈاکٹر چندر شیکھر پیمسانی، رام موہن نائیڈو کنجراپو، سرینواس ورما

مغربی بنگال: شانتنو ٹھاکر، سکانت مجمدار۔

پنجاب: رونیت سنگھ بٹو۔

آسام: سربانند سونووال، پابیترا مارگریتا۔

اتراکھنڈ: اجے ٹمٹا

دہلی: ہرش ملہوترا

مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں نے تو کمال کر دیا…سہیل انجم

0

پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں نے پارلیمنٹ کی صورت بدل دی تو غلط نہیں ہوگا۔ انھوں نے ایسا کمال کیا ہے جس کی کسی نے توقع نہیں کی تھی۔ نتائج آنے کے بعد جہاں بہت سے موضوعات زیر بحث ہیں وہیں میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس پر بھی گفتگو ہو رہی ہے کہ ان انتخابات میں مسلم اور دلت ووٹرز نے کیا کردار ادا کیا اور نئی لوک سبھا میں ان کی نمائندگی کی صورت حال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں نے انتخابی مقابلوں میں بی جے پی کے مخالف پلڑے میں اپنا وزن ڈالا جس کی وجہ سے ملک کا انتخابی و سیاسی نقشہ تبدیل ہو کر رہ گیا۔

انتخابی نتائج سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس بار مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہیں ہوا۔ انھوں نے اجتماعی طور پر حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کو ووٹ دیا۔ اسی طرح دلتوں اور او بی سی نے بھی اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دیا جس کی وجہ سے بی جے پی کو بہت سی سیٹیں گنوانا پڑیں۔ حالانکہ اہم سیاسی جماعتوں نے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار کم مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ 2019 میں 543 نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 115 مسلم امیدوار کھڑے کیے گئے تھے جب کہ 2024 میں ان کی تعداد 78 تھی۔ گزشتہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 26 تھی اس بار دو کم ہو کر 24 رہ گئی ہے۔ 2014 میں یہ تعداد 23 تھی۔

اس بار کانگریس کے سات، ٹی ایم سی کے پانچ، سماجوادی پارٹی کے چار، انڈین یونین مسلم لیگ کے تین، نیشنل کانفرنس کے دو، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایک اور دو آزاد مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ کامیاب امیدواروں میں سہارنپور سے کانگریس کے عمران مسعود، دھوبری آسام سے رقیب الحسین جنھوں نے مولانا بدر الدین اجمل کو ساڑھے دس لاکھ ووٹوں سے ہرایا، کیرانہ سے سماجوادی پارٹی کی اقرا چودھری، غازی پور سے افضال انصاری، رامپور سے مولانا محب اللہ ندوی، حیدرآباد سے اے آئی ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی، لداخ سے آزاد امیدوار محمد حنیفہ، جموں وکشمیر کے بارہمولہ سے آزاد امیدوار انجینئر رشید، بہرامپور مغربی بنگال سے ٹی ایم سی کے یوسف پٹھان اور پونانی کیرالہ سے انڈین یونین مسلم لیگ کے عبد الصد صمدانی قابل ذکر ہیں۔

دراصل سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ’پی ڈی اے‘ نام سے ایک فارمولہ بنایا تھا یعنی پچھڑا، دلت اور الپ سنکھیک یعنی اقلیت۔ اور اس کے 86 فی صد کامیاب امیدوار او بی سی، دلت اور اقلیتی برادری سے ہیں۔ پی ڈی اے فارمولے کو کامیاب بنانے میں اکھلیش کے ساتھ راہل گاندھی نے بھی زبردست محنت کی تھی جس کا پھل سامنے ہے۔ سماج وادی پارٹی کے کامیاب 37 امیدواروں میں 20 او بی سی، آٹھ دلت اور چار مسلمان ہیں۔ یہاں تک کہ اترپردیش کے ایودھیا سے سماجوادی پارٹی کے دلت امیدوار اودھیش پرساد نے بی جے پی کے اونچی ذات کے امیدوار للو سنگھ کو ہرایا ہے۔اس شکست کے بعد بی جے پی اور مودی کے بھکت ایودھیا کے ہندوؤں کو پانی پی پی کر گالی دے رہے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے کامیاب امیدواروں کو دیکھیں تو 33 فیصد او بی سی، 19 فیصد دلت اور چھ فیصد مسلمان ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس بار بی جے پی کو بہت کم دلت ووٹ ملا۔ 2019 کے الیکشن میں بی ایس پی کا اکثریتی ووٹ خاموشی کے ساتھ بی جے پی کو ملا تھا لیکن اس بار اس کے زیادہ ووٹرز نے ’انڈیا‘ اتحاد کو ووٹ دیا۔ سابق رکن پارلیمان محمد ادیب کہتے ہیں کہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے مسلمان منفی ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ یعنی بی جے پی کو ہرانے کے لیے کبھی اس پارٹی کو تو کبھی اس پارٹی کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے مثبت ووٹنگ کی۔ اترپردیش میں 32 لوک سبھا حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 52 فی صد تک ہے۔ ان میں 28 پر بی جے پی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ س بار دو سیٹوں کو چھوڑ کر باقی سب پر ہار گئی۔

یاد رہے کہ اس الیکشن میں مسلمانوں کو بہت کم اہمیت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے لیے کسی اسکیم کا اعلان تک نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ان کی آواز اٹھانے والے کو ملک کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ 2014 کے بعد مسلمانوں کے تعلق سے سیاسی جماعتوں کا نظریہ بدل گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی بیشتر انتخابی تقریروں میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں پر مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا ازام لگایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس دلتوں اوراد بی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ 2014 کے بعد بی جے پی نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم کر دی تھی۔ پہلے جہاں ہر پارٹی یہ سوچتی تھی کہ مسلمان اس سے ناراض نہ ہو جائے وہیں 2014 کے بعد مسلمانوں کا نام لینا بھی سیاسی جرم بن گیا۔

مسلمانوں، او بی سی اور دلتوں کی جانب سے اپوزیشن اتحاد کو ووٹ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے بعض ارکان پارلیمان نے آئین کو بدلنے کی بات کہی تھی جس کا مسلمانوں میں تو منفی اثر ہوا ہی دلتوں اور دیگر پس ماندہ برادریوں میں بھی ہوا۔ یہاں تک کہ ایودھیا کے بی جے پی امیدوار للو سنگھ نے بھی کہا تھا کہ بی جے پی کو اگر چار سو سیٹیں مل جائیں توآئین بدل دیا جائے گا۔ ان اعلانات نے دلتوں پر بھی منفی اثر ڈالا۔ انھوں نے اس کا مطلب یہ نکالا اور درست نکالا کہ بی جے پی دلت رہنما بابا صاحب امبیڈکر کا آئین بدل کر دلتوں کے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بزنس مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر اور مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار پروفیسر فرقان قمر کہتے ہیں کہ نتائج نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس بار لوک سبھا کی جو بناوٹ ہوگی اس کا جھکاؤ اونچی ذات کے ہندووں کے بجائے دلت، شیڈولڈ کاسٹ اور او بی سی کی جانب ہوگا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2019 کے انتخابات میں کامیاب مسلمانوں کی شرح ساڑھے پانچ فی صد تھی۔ اس بار یہ کم ہو کر ساڑھے چار رہ گئی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فی صد ہے۔ لیکن اگر انڈیا اتحاد کے کامیاب مسلم امیدواروں کا فی صد دیکھیں تو وہ سات ہے۔ نتائج نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان جیتنے کے امکانات نہیں رکھتے۔ اگر مسلمانوں کو موقع ملے تو وہ جیت کر دکھا سکتے ہیں۔

پروفیسر فرقان قمر ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایسے حلقوں کو جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے اور وہ نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں حکومت نے دلتوں اور او بی سی کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے فطری طور پر وہاں سے مسلمان کامیاب نہیں ہوتے۔ اس بات کی نشان دہی مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی والے حلقوں کو دوسروں کے لیے مخصوص نہ کرے۔ اس بار مسلمانوں نے جذباتیت کے بجائے عقلمندی سے ووٹنگ کی جس کی وجہ سے ان کا ووٹ بکھرنے سے بچ گیا۔

محمد ادیب کے خیال میں اس بار مسلمانوں نے جذباتیت سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے مسلک اور برادری پر آئین کے تحفظ کو ترجیح دی۔ کیونکہ اگر آئین بچے گا تبھی مسلمان بچے گا۔ یہ رجحان بہت خوش آئند ہے۔ اس الیکشن میں ایک بار پھر مسلمانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی طور پر غیر اہم نہیں ہوئے ہیں۔ اب یہ مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ بتائے کہ مسلمان سیاسی طور پر غیر اہم نہیں ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ بی جے پی کے واحد مسلم امیدوار عبد السلام ملا پورم کیرالہ سے ہار گئے ہیں۔ وہ تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ وہاں انڈین یونین مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر کامیاب ہوئے ہیں۔

اکھلیش یادو نے کیا این ڈی اے حکومت پر طنز، کہا- ’اوپر سے جڑا کوئی تار نہیں، نیچے سے کوئی آدھار نہیں‘

0

بی جے پی کے زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت کی آج ہونے والی حلف برداری کی بھرپور تیاریوں کے درمیان سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اس پر سخت طنز کیا ہے۔ انہوں نے اس حکومت کو ایسی حکومت قرار دیا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ’اوپر سے جڑا کوئی تار نہیں، نیچے سے کوئی آدھارنہیں۔ اَدھر میں جو ہے اٹکی ہوئی وہ تو کوئی سرکار نہیں‘۔

واضح رہے کہ نریندر مودی آج شام راشٹرپتی بھون میں مخلوط حکومت کے سربراہ کے طور پر وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیں گے۔ پچھلی دو میعادوں میں بی جے پی نے مکمل اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی تھی لیکن اس بار اسے مکمل اکثریت نہیں ملی۔ ایسے میں حکومت کی تشکیل میں تیلگو دیشم پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ کا رول فیصلہ کن ہو گیا ہے۔

سماجوادی پارٹی نے ’انڈیا الائنس‘ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا اور اتر پردیش میں سب سے زیادہ 37 سیٹیں جیت کر اب تک کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس ایودھیا کے گرد اس کی پوری سیاست گھوم رہی ہے وہاں پر سماجوادی پارٹی کے امیدوار نے بی جے پی کے امیدوار کو شکست دیتے ہوئے بھرپور اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔

وزیر بنانے کی پیشکش کے باوجود بی جے پی کی حمایت نہیں کریں گے، ہریانہ کے آزاد رکن اسمبلی کا بیان

0

چرخی دادری: ہریانہ کے چرخی دادری سے آزاد ایم ایل اے اور سانگوان کھاپ کے سربراہ سومویر سانگوان نے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی کے بیان کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی پر بڑا حملہ کیا ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے کہا تھا کہ وہ ریاست کے تینوں آزاد ارکان اسمبلی کو بی جے پی میں شامل ہونے پر راضی کریں گے۔ سی ایم سینی کے اس بیان پر ایم ایل اے سومویر سانگوان نے جوابی حملہ کیا ہے۔

سومویر نے کہا کہ تینوں آزاد ایم ایل اے کانگریس کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ چاہے بی جے پی حکومت ان ایم ایل اے کو وزیر یا صدر بنانے کی پیشکش کرے، وہ بی جے پی کی حمایت نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ تینوں آزاد ایم ایل اے بی جے پی میں شامل نہیں ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ انہیں لالچ دینا بند کریں۔ تینوں ایم ایل اے اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ دراصل، ان تینوں ارکان اسمبلی نے کانگریس کی حمایت کر کے ہریانہ میں بی جے پی حکومت کو اقلیت میں لا دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر سینی حکومت ہریانہ اسمبلی فلور ٹیسٹ کراتی ہے تو وہ ناکام ہو جائے گی۔

چنڈی گڑھ کے ہوائی اڈے پر کنگنا رانوت کے ساتھ بدسلوکی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ نازیبا الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ سی آئی ایس ایف کی خاتون سپاہی کے جذبات مجروح ہوئے، اس لئے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ کنگنا رانوت کے بیانات سے معاشرے میں غلط پیغام گیا تھا، جس کے نتیجے میں خاتون فوجی نے غصے میں آ کر کنگنا کو تھپڑ مار دیا۔ کنگنا کو معاشرے کے تانے بانے کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور انہیں اپنے نازیبا بیان کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

مودی کابینہ میں این سی پی کو جگہ نہیں؟ اجیت پوار ناراض، شرد پوار گروپ نے کیا طنز

0

نریندر مودی کی نئی حکومت آج شام کو حلف اٹھانے جا رہی ہے۔ دریں اثنا، یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی اجیت پوار کی قیادت والی این سی پی کو مودی کابینہ میں جگہ نہیں ملے گی۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی نے آج اپنی لوک کلیان مارگ والی رہائش گاہ پر ممکنہ وزراء کے ساتھ میٹنگ کی تو این سی پی سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ این سی پی سربراہ اجیت پوار نئی مرکزی حکومت میں شامل ہونے کے لیے کوئی کال موصول نہ ہونے پر ناراض ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی اور بی جے پی لیڈر دیویندر فڑنویس دہلی میں این سی پی کے رکن پارلیمنٹ سنیل تٹکرے کے گھر پہنچے۔ بتایا جا رہا ہے کہ این سی پی لیڈر پرفل پٹیل اور چھگن بھجبل بھی یہاں موجود ہیں۔ سنیل تٹکرے نے رائے گڑھ لوک سبھا سیٹ سے الیکشن جیتا ہے، جب کہ پرفل پٹیل راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔

دوسری طرف شرد پوار گروپ کے این سی پی لیڈر روہت پوار نے اجیت پوار پر طنز کیا ہے۔ انہوں نے کہا، “اجیت دادا کی طاقت کم کر دی گئی ہے۔ بی جے پی یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہمیں آپ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اجیت دادا کو آگے بڑھ کر بی جے پی کے نشان پر لڑنا پڑے گا۔ دادا سے سب سے زیادہ فائدہ پرفل پٹیل کو ہوا ہے۔ ای ڈی کی تحقیقات بھی بند ہو گئی اور راجیہ سبھا بھی مل گئی۔‘‘

خیال رہے کہ اجیت پوار نے جمعہ (7 جون) کو دہلی میں این ڈی اے کی میٹنگ میں شرکت کی تھی اور اس دوران انہوں نے اسٹیج سے کہا تھا کہ وہ این ڈی اے کے لیڈر کے طور پر پی ایم مودی کی حمایت کرتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر کے اس الیکشن میں مہایوتی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس اتحاد میں شامل بی جے پی کو 9 سیٹیں ملی ہیں۔ جبکہ ایکناتھ شندے دھڑے کی شیو سینا کو 7 اور اجیت پوار دھڑے کی این سی پی کو صرف ایک سیٹ ملی ہے۔ وہیں کانگریس کی قیادت والی مہاوکاس اگھاڑی نے انتخابات میں 30 سیٹیں جیتی ہیں۔

نریندر مودی کی حلف برداری تقریب میں کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے ہوں گے شامل

0

کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے آج شام راشٹرپتی بھون میں منعقد ہونے والی نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کریں گے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق سینئر لیڈروں اور انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کے بعد کانگریس صدر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ انہیں کل ملا تھا۔ کانگریس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد لیا گیا ہے۔

اس سے قبل کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا تھا کہ پارٹی لیڈروں کو نریندر مودی کی تقریب حلف برداری کے لیے کوئی دعوت نامہ نہیں ملا ہے جب کہ تمام دعوت نامے بین الاقوامی لیڈروں کو دیئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ 2024 کے انتخابی نتائج نریندر مودی کی اخلاقی شکست ہیں۔

نریندر مودی دو مکمل میعاد کے بعد مخلوط حکومت کے سربراہ کے طور پر مسلسل تیسری میعاد کے لیے آج شام 7:15 بجے حلف لیں گے۔ حلف برداری کی تقریب راشٹرپتی بھون میں منعقد کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت ملی تھی۔ حالانکہ اس بار بھی وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن اس کی نشستوں کی تعداد 240 ہی رہی اور لوک سبھا میں اکثریت کی تعداد 272 ہے۔ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کو 293 سیٹوں کے ساتھ مکمل اکثریت حاصل ہے۔ ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو ’این ڈی اے‘ کی دیگر دو بڑی پارٹیاں ہیں جن کی بالترتیب 16 اور 12 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔ راشٹرپتی بھون میں منعقدہ تقریب حلف برداری میں ہندوستان کے پڑوسیوں اور بحر ہند کے خطے کے ممالک کے رہنما بھی شریک ہو رہے ہیں۔

رائے دہندگان کا شکریہ ادا کرنے راہل، پرینکا وسونیا گاندھی 11 جون جائیں گے رائے بریلی

0

لوک سبھا انتخابات میں رائے بریلی کے رائے دہندگان نے کانگریس کو بھرپور ووٹ دیا۔ انڈیا الائنس کے تحت رائے بریلی سے کانگریس کے امیدوار راہل گاندھی کو رائے بریلی کی عوام نے پہلی بار یہاں سے کامیاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے۔ عوام نے انہیں ریکارڈ ووٹوں سے کامیاب کیا ہے۔ اس کامیابی کے لیے رائے بریلی کے رائے دہندگان کا شکریہ ادا کرنے کی غرض سے راہل، پرینکا اور سونیا گاندھی 11 جون کو رائے بریلی جائیں گے۔

راہل گاندھی نے دو پارلیمانی سیٹ رائے بریلی اور وائناڈ سے انتخابی میدان میں تھے۔ وائناڈ کی سیٹ پر بھی انہوں نے اپنے مد مقابل سی پی آئی کی امیدوار اینی راجا کو بھرپورووٹوں سے شکست دی۔ خبروں کے مطابق 11 جون کو راہل، پرینکا اور سونیا گاندھی رائے بریلی جائیں گے۔ وہ وہاں پر لوگوں سے ملیں گے اور ان کا شکریہ ادا کریں گے۔ خبروں کے مطابق رائے بریلی کے بعد 12 جون کو راہل گاندھی وائناڈ بھی جا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ راہل گاندھی پہلی بار رائے بریلی لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑے ہیں۔ ان سے قبل سونیا گاندھی یہاں سے ایم پی تھیں۔ صحت کی وجہ سے سونیا گاندھی نے اس بار لوک سبھا انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور رائے بریلی کی اپنی نشست راہل گاندھی کو دے دی۔ راہل گاندھی نے یہاں سے 3,90,030 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ اس الیکشن میں انہیں 6,87,649 ووٹ ملے جبکہ حریف بی جے پی کے دنیش پرتاپ سنگھ کو 2,97,619 ووٹ ملے۔ راہل گاندھی نے وایناڈ سیٹ پر بھی بڑی جیت حاصل کی ہے۔ انہوں نے سی پی آئی امیدوار اینی راجہ کو 3,64,422 ووٹوں سے شکست دی۔ یہاں انہیں کل 6,47,445 ووٹ ملے۔