Wednesday, December 17, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 955

رکن پارلیمنٹ بنانے پر عوام کا شکریہ ادا کرنے راہل پہنچے وائناڈ، ایودھیا میں بی جے پی کی شکست کا سبب بھی بتایا

0

راہل گاندھی نے بدھ کے روز کیرالہ کا دورہ کیا جہاں مختلف مقامات پر لوگوں سے ملاقات کی اور تقاریب سے بھی خطاب کیا۔ دراصل راہل گاندھی وائناڈ کی عوام کا شکریہ ادا کرنے کیرالہ پہنچے تھے کیونکہ اس پارلیمانی حلقہ سے سابق کانگریس صدر کثیر ووٹوں سے فتحیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے صبح ملپورم میں روڈ شو کیا، پھر وائناڈ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا، اور آخر میں مٹنور کی عوام سے ملاقات کرتے نظر آئے۔

Incredible scenes in Mattanur!

A massive, spontaneous crowd surged to warmly welcome Shri @RahulGandhi.

Kerala pic.twitter.com/kax2XPewiv

— Congress (@INCIndia) June 12, 2024

وائناڈ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے نہ صرف عوام کا ان کی محبتوں کے لیے شکریہ ادا کیا، بلکہ بی جے پی کے نظریات اور مودی حکومت کی نفرت پر مبنی سیاست کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ انھوں نے کہا کہ نریندر مودی نے گزشتہ دس سالوں میں ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ سے لڑانے کا کام کیا ہے۔ انتخابات میں مودی جی آئین کو ختم کرنے کی بات کر رہے تھے، لیکن ملک کی عوام نے ان کو جواب دے دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی صرف اڈانی-امبانی کے لیے کام کرتے ہیں، وہ غریبوں کے لیے کام نہیں کرتے، اور عوام نے لوک سبھا انتخاب میں اچھا سبق سکھایا ہے۔

Over the last ten years, the BJP has attacked the Constitution. They attack the Constitution when they make one community fight another. They attack the Constitution when they try to impose one idea, one language, and one culture on this country. 

Before the elections, BJP… pic.twitter.com/RnJjcjokAN

— Congress (@INCIndia) June 12, 2024

راہل گاندھی نے ایودھیا میں بی جے پی کو ملی شکست کا تذکرہ بھی اپنی تقریر کے دوران کیا اور بی جے پی امیدوار کی شکست کا سبب بھی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’بی جے پی ایودھیا میں ہار گئی، وہ اتر پردیش میں ہار گئے۔ وہ ہار گئے کیونکہ وہ ہندوستان کے نظریات پر حملہ کر رہے تھے۔ ہمارے آئین میں ہندوستان کو ریاستوں کا یونین کہا گیا ہے۔ ہندوستان ریاستوں، زبانوں، تاریخ، تہذیب، مذہب اور روایات کا ایک یونین (مجموعہ) ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’آپ سبھی نے تصویر دیکھی ہوگی کہ نریندر مودی نے آئین کو اپنی پیشانی سے لگا رکھا ہے۔ یہ ملک کی عوان نے کروایا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کو عوام نے پیغام دیا ہے کہ آپ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتے۔‘‘

#WATCH | At a public meeting in Kerala’s Wayanad, Congress leader Rahul Gandhi says, “BJP lost in Ayodhya, they lost in Uttar Pradesh. They lost because they were attacking the idea of India. In our constitution, India is called a union of states. India is a union of states,… pic.twitter.com/cFk5gaXOtk

— ANI (@ANI) June 12, 2024

راہل گاندھی نے مشکل وقت میں انڈیا اتحاد کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ کوئی عام انتخاب نہیں تھا۔ انڈیا بلاک کے خلاف پورا میڈیا تھا۔ سی بی آئی، ای ڈی اور پورا انتظامیہ ہمارے خلاف تھا۔ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کا خیال رکھتے ہوئے انتخاب کا خاکہ تیار کیا۔ تمام کوششوں کے بعد بھی وزیر اعظم وارانسی میں شکست سے بمشکل بچ پائے۔‘‘

This was not a normal election. The INDIA Alliance had the entire media against them. The CBI, the ED, the Election Commission, and the entire administrator were against us.

In the last 2-3 days, the Prime Minister broke the campaigning rule and went and meditated in… pic.twitter.com/cHX9nIEDMV

— Congress (@INCIndia) June 12, 2024

کٹھوا دہشت گردانہ حملہ میں ایک جوان شہید، کانگریس کا متاثرہ کنبہ کے تئیں اظہارِ ہمدردی

0

جموں و کشمیر کے کٹھوا میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے بعد جہاں 2 دہشت گردوں کے مارے جانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں، وہیں ایک جوان کے شہید ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ اس تعلق سے کانگریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے جس میں شہید جوان کے کنبہ کے تئیں ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

کانگریس نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا ہے کہ ’’جموں و کشمیر واقع کٹھوا میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں سی آر پی ایف کے ایک جوان کے شہید ہونے کی خبر غمناک ہے۔ کانگریس کنبہ کی ہمدردیاں شہید کنبہ کے ساتھ ہیں۔‘‘ کانگریس نے مزید کہا ہے کہ ’’ایشور سے دعا ہے کہ وہ پاکیزہ روح کو اپنے قدموں میں جگہ دیں اور ان کے کنبہ کو یہ تکلیف برداشت کرنے کی طاقت دیں۔‘‘

اس سے قبل کانگریس کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے ایک ویڈیو پیغام جاری کر جموں و کشمیر میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے ویڈیو پیغام کے ساتھ اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’جس دن نریندر مودی حلف لے رہے تھے، اسی وقت کشمیر میں دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ اس کے بعد لگاتار کشمیر میں دہشت گردانہ حملے جاری ہیں، لیکن پی ایم مودی خاموش ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پی ایم مودی کے ’نئے کشمیر‘ پر کیے گئے کھوکھلے دعووں کی قلعی کھل رہی ہے۔ وزیر اعظم جی خاموشی توڑیے اور جواب دیجیے۔‘‘

پون کھیڑا ویڈیو میں کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’جس دن اس ملک میں نریندر مودی وزیر اعظم عہدہ کا حلف لے رہے تھے، کئی ممالک کے سربراہان آئے ہوئے تھے، اسی دن ریاسی میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، جس میں 9 تیرتھ یاتری مارے گئے تھے۔ اس میں کچھ بچے بھی تھے۔ وہ نظارہ دیکھ کر ہم سبھی کا دل دہل گیا۔ اس کے بعد سے لگاتار جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں۔‘‘ وہ پی ایم مودی سے سوال پوچھتے ہیں کہ ’’کیا یہ آپ کا نیا کشمیر ہے؟ اس نئے کشمیر میں روزانہ دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے منھ سے ایک لفظ تک نہیں نکل رہا۔ وہ وزیر اعظم جو پاکستانی وزیر اعظم کی مبارکباد پر فوراً شکریہ ادا کرتے ہیں، دہشت گردانہ حملے پر ایک لفظ تک نہیں بولتے۔ ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران نے اظہارِ افسوس کیا، انھوں نے اس حملے کی مذمت بھی کی، لیکن پی ایم مودی کے منھ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا۔‘‘

پون کھیڑا نے مودی حکومت میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی تفصیل بھی ویڈیو میں بیان کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں 2 ہزار 262 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ اس میں ہمارے 596 بہادر جوان شہید ہو گئے۔ اس کا جواب کون دے گا؟ کس کی ذمہ داری ہے یہ؟ پیر پنجال اور پونچھ دہشت گردوں کا قلعہ بن گیا ہے اور ریاسی میں بھی دہشت گردانہ حملے ہونے لگے ہیں، جبکہ اسے ہمیشہ سے ہی پرسکون علاقہ مانا جاتا تھا۔ اب اس پر جواب کون دے گا؟ وزیر اعظم جی! اگر آپ نے پٹاخہ چھوڑنا اور لڈو تقسیم کرنا بند کر دیا ہو تو مہربانی کر کے اس پر بھی بولنا شروع کیجیے، کیونکہ ملک آپ کو سننا چاہتا ہے کہ آپ کا ان دہشت گردانہ حملوں پر کیا رخ ہے۔

امریکی تاریخ میں پہلی بار کسی صدر کا بیٹا مجرم قرار، ہنٹر بائڈن کو ہو سکتی ہے جیل

0

امریکہ میں صدارتی انتخاب قریب ہے، اور اس سے عین قبل صدر جو بائڈن مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ ’ڈرگ اینڈ گن‘ کیس میں امریکہ کے ڈیلاویئر کی ایک عدالت نے جو بائڈن کے بیٹے ہنٹر بائڈن کو قصوروار قرار دیا ہے۔ ان کی سزا کا اعلان 120 دنوں کے اندر ہو سکتا ہے۔ ہنٹر کو زیادہ سے زیادہ 25 سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر بائڈن نے حال ہی میں فرانس دورہ کے دوران میڈیا کے ذریعہ پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر ہنٹر ڈرگ اینڈ گَن ٹرائل میں قصوروار پایا جاتا ہے تو وہ اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ہے جب کسی موجودہ صدر کے بیٹے کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

دراصل ہنٹر بائڈن جس گن ٹرائل معاملہ میں قصوروار پائے گئے ہیں وہ 6 سال قدیم ہے۔ ہنٹر پر بندوق لائسنس لینے کی درخواست کے دوران اپنی ڈرگ کی عادت کو چھپانے کا الزام ہے۔ 2018 میں ہنٹر بائڈن نے کولٹ کوبرا ہینڈ گن خریدتے وقت افسران سے کچھ جانکاری چھپائی تھی۔ اس وقت وہ نشے کے عادی تھے اور یہ بات انھوں نے اپنی درخواست میں ظاہر نہیں کی تھی۔ امریکی قانون کے مطابق کسی بھی نشہ کے عادی انسان کو بندوق کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا ہے۔

ہنٹر کو مجموعی طور پر تین معاملوں میں قصوروار پایا گیا ہے۔ ان میں 2 معاملوں میں 10-10 سال کی جیل اور ایک میں 5 سال کی جیل ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق سزا کو کم یا زیادہ کرنا جج پر منحصر کرتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی خبر کے مطابق جن اشخاص کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں ہوتا ہے اور دھوکہ سے خریدے گئے اسلحہ کا استعمال کسی مجرمانہ سرگرمی میں نہیں ہوا ہوتا ہے تو اس کی سزا کم کر دی جاتی ہے۔ وال اسٹریٹ جیل کنسلٹنٹس کے ڈائریکٹر لیری لیون کا کہنا ہے کہ ہنٹر کو 36 مہینوں سے زیادہ کی سزا نہیں ہوگی، اور یہ سزا بھی ان کے جیل میں اچھے سلوک کی صورت میں نصف ہو جائے گی۔

بہرحال، اس کیس کی سماعت کے دوران ہنٹر کی سابق معشوقہ ہیلی نے ان کے خلاف گواہی دی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیلی نے عدالت میں کہا کہ انھوں نے جب ہنٹر بائڈن کی کار کی تلاشی لی تب انھیں وہاں ایک بندوق ملی جسے دیکھ کر وہ ڈر گئی تھیں۔ ہیلی نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ انھوں نے کئی بار ہنٹر کو ڈرگ لیتے ہوئے پکڑا ہے۔ غلط طریقے سے اسلحہ رکھنے کے علاوہ ہنٹر بائڈن پر کیلیفورنیا میں فرضی ٹیکس فائل کرنے، اسلحوں سے متعلق معاملوں کو ختم کرانے کے لیے سودا کرنے کے بھی الزامات ہیں۔

حزب اللہ نے کمانڈر کی موت کا 24 گھنٹے کے اندر لیا بدلہ، اسرائیل پر 200 راکٹ سے حملہ، ایمرجنسی کا اعلان

حزب اللہ کے سینئر کمانڈر طالب عبداللہ اسرائیلی فوج کی ایئر اسٹرائیک میں 11 جون کی شب ہلاک ہو گیا تھا، جس سے ناراض حزب اللہ نے 24 گھنٹے کے اندر بدلے کی کارروائی کی ہے۔ اپنے کمانڈر کی موت کے کچھ ہ گھنٹوں بعد حزب اللہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے تقریباً 200 راکٹ اسرائیل کی طرف داغ دیے ہیں۔ اس حملے کے بعد حزب اللہ نے کہا کہ اس نے اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں کو ہدف بنایا ہے۔

بڑے پیمانے پر راکٹ حملہ کے بعد لبان سرحد سے ملحق اسرائیلی شہر سائرن کی آوازوں سے گونج اٹھے ہیں۔ شروعاتی خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ بیشتر راکیٹس کو آئرن ڈوم نے ہوا میں ہی تباہ کر دیا ہے۔ فی الحال کسی کے بھی جاں بحق ہونے کی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے اور سیکورٹی افسران کی فوری میٹنگ طلب کی گئی ہے۔

راکٹ بیراج کے فوراً بعد کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے کئی راکٹ لانچروں کو تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق فوج نے لبنان سرحد کے 10 کلومیٹر کے دائرے میں آنے والے قصبوں اور گاؤں میں رہنے والوں کو بم شیلٹر میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس درمیان اسرائیلی میڈیا نے لبنان کی طرف سے کیے گئے اب تک کے سبھی حملوں میں تازہ حملے کو سب سے بڑا بتایا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ حزب اللہ نے ایک ساتھ تقریباً 200 راکٹ داگے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا نشانہ اسرائیل کا رافیل ڈیفنس سسٹم تھا۔

چنڈی گڑھ، دہلی و رانچی کے مینٹل اسپتالوں میں بم کی دھمکی، اسپتال خالی کرایا گیا

0

گزشتہ مہینے بھر سے بموں کی دھمکیوں کا ایک سلسلہ سا چل نکلا ہے۔ یہ دھمکی ایئر پورٹ، اسکولوں اور اسپتالوں تک کو ملی رہی اور تفتیش کے بعد غلط ثابت ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک دھمکی چنڈی گڑھ کے مینٹل اسپتال کو ای میل کے ذریعے دی گئی ہے۔ ای میل میں اسپتال میں بم ہونے کی بات کہی گئی جس کے بعد وہاں موجود مریضوں اور عملے میں خوف وہراس پھیل گیا۔ اس دھمکی کے بعد اسپتال کو خالی کرایا گیا اور بم کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کیا گیا لیکن کچھ نہیں ملا۔

نیوز پورٹل ’آج تک‘ کے مطابق چنڈی گڑھ مینٹل اسپتال کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ اسپتال میں بم کی دھمکی کا یہ ای میل دہلی اور جنوبی ہندوستان کے کئی اسپتالوں کو بھی موصول ہوا ہے۔ چنڈی گڑھ پولیس حکام نے بتایا کہ مینٹل اسپتال کے پورے احاطے کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ ہر اس جگہ کی جانچ کی گئی جہاں ممکنہ بم پلانٹ کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ نہیں ملا۔ میل میں چنڈی گڑھ کے علاوہ دہلی اور رانچی کے مینٹل اسپتالوں میں بھی بم ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق بم ڈفیوزل اسکواڈ اور فائر بریگیڈ کی ٹیمیں موقع پر تعینات کر دی گئی ہیں۔

اسپتال کی ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اپراجتا نے بتایا کہ صبح کے وقت سیکٹر 32 میں واقع مینٹل اسپتال میں بم کے بارے میں ایک ای میل موصول ہوئی تھی۔ اس وقت اسپتال میں مریضوں، ان کے اہل خانہ اور عملہ سمیت تقریباً 100 افراد موجود تھے۔ یہ میل ملک کے کئی مینٹل انسٹی ٹیوٹ کو بھیجے گئے تھے۔ اس ای میل میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے اسپتال میں بم ہے۔ ہم نے وہ ای میل پولیس کو فارورڈ کر دیا ہے۔ میل میں بھیجنے والے کا نام نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ پرسنل ای میل آئی ڈی سے بھیجا گیا میل تھا۔ ڈاکٹر اپرجتا نے بتایا کہ چنڈی گڑھ مینٹل اسپتال کے علاوہ دہلی کے کچھ اسپتالوں اور جھارکھنڈ کے رانچی میں واقع سی آئی پی (سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف سائیکٹری) کے نام میل میں شامل تھے۔ میل میں لکھا تھا کہ آپ کے اسپتال میں بم ہے اور سب مر یں گے۔

اکھلیش یادو کرہل اسمبلی سیٹ سے مستعفی، اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی چھوڑا

0

 یوپی کی قنوج لوک سبھا سیٹ سے انتخاب جیتنے کے بعد سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو اسمبلی کے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کرہل اسمبلی سیٹ اور یوپی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا ہے۔ ان کے استعفیٰ دینے کے بعد اب کرہل اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخاب ہوگا۔

خبروں کے مطابق اکھلیس یادو کے کرہل اسمبلی سیٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد پارٹی ملائم سنگھ یادو کے پوتے تیج پرتاپ یادو کو ضمنی الیکشن میں اپنا امیدوار بنا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے اکھلیش یادو کے چچا شیو پال یادو کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔ اکھلیش یادو نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں قنوج سیٹ سے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 2022 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں انہوں نے مین پوری ضلع کے کرہل اسمبلی سیٹ سے جیت حاصل کی تھی۔ وہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

کرہل اسمبلی سیٹ مین پوری لوک سبھا حلقے میں آتی ہے جہاں سے اکھلیش یادوکی اہلیہ ڈمپل یادو رکن پارلیمنٹ ہیں۔ کرہل سیٹ پر یادو برادری کی اکثریت ہے۔ کرہل یوپی کی ان اسمبلی سیٹوں میں سے ایک ہے جہاں بی جے پی کبھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ جب قنوج اور کرہل کے درمیان انتخاب کی بات آئی تو اکھلیش یادو اور ایس پی لیڈروں نے قنوج کا انتخاب کیا۔ واضح رہے کہ یوپی کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے ایس پی 37 سیٹیں جیت کر لوک سبھا میں تیسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اس کی اتحادی کانگریس نے بھی 6 سیٹیں جیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی کو 33 اوراس کی اتحادی آر ایل ڈی کو 2 اور اپنا دل (ایس) کو ایک سیٹ ملی ہے۔ جبکہ مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی کا اس لوک سبھا الیکشن میں کھاتہ بھی نہیں کھلا ہے۔

کویت: رہائشی عمارت میں آگ لگنے سے 41 افراد جاں بحق، 30 سے زیادہ ہندوستانی کارکن شامل

کویت سٹی: کویت میں بدھ کے روز ایک عمارت میں زبردست آگ بھڑک اٹھی۔ حادثے میں 41 افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ خلیجی ملک سے آنے والی خبروں کے مطابق مرنے والوں میں وہاں کام کرنے والے تقریباً 30 ہندوستانی شہری بھی شامل ہیں۔ حکام نے بتایا کہ آگ بدھ کو علی الصبح کویت کی جنوبی احمدی گورنری کے علاقے منگاف میں واقع 6 منزلہ عمارت کے باورچی خانہ میں لگی۔ خیال رہے کہ کویت کی کل آبادی کا 21 فیصد (10 لاکھ) ہندوستانی ہیں، جو افرادی قوت کا 30 فیصد (تقریباً 9 لاکھ) ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ عمارت میں تقریباً 160 لوگ رہتے تھے جو ایک ہی کمپنی کے ملازم ہیں۔ وہاں رہنے والے بہت سے ملازمین ہندوستانی ہیں۔ کویت میں ہندوستانی سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’”آج ہندوستانی کارکنوں کے ساتھ ہونے والے المناک آتشزدگی کے حادثے کے سلسلے میں سفارت خانے نے ایک ہنگامی ہیلپ لائن نمبر +965-65505246 جاری کیا ہے۔ تمام متعلقہ افراد سے درخواست ہے کہ تازہ کاری کے لئے اس ہیلپ لائن سے رابطہ کریں۔ سفارت خانہ ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘

العربیہ کے مطابق حکام نے کہا ہے کہ ’محکمہ شہری دفاع کی ٹیموں نے آتشزدگی پر قابو پا لیا ہے۔ محکمہ شہری دفاع نے آتشزدگی کے اسباب جاننے کے لیے تفتیش شروع کر دی ہے۔‘‘ حکام نے کہا ہے کہ ’’عمارت چھ منزلہ ہے جس میں 43 افراد زخمی ہوگئے اور جنہیں مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔’’

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’کویت سٹی میں آتشزدگی کے واقعہ کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ 40 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہسپتال میں 50 سے زائد افراد داخل ہیں۔ ہمارے سفیر موقع پر گئے ہیں۔ ہم مزید معلومات کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس المناک واقعہ میں جان گنوانے والوں کے اہل خانہ سے میری گہری تعزیت ہے۔ میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔ ہمارا سفارت خانہ اس سلسلے میں تمام متعلقہ افراد کو مکمل مدد فراہم کرے گا۔

کویت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، کویت کے وزیر داخلہ شیخ فہد الیوسف الصباح نے پولیس کو عمارت کے مالک، عمارت کے چوکیدار اور کارکن کی آجر کمپنی کے مالک کو جائے وقوعہ پر موجود مجرمانہ شواہد کے اہلکاروں کی تحقیقات مکمل ہونے تک گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘

’میں کشمکش میں ہوں، وائناڈ کا رکن پارلیمنٹ بنوں یا رائے بریلی کا‘، کیرالہ میں روڈ شو کے دوران راہل گاندھی کا خطاب

0

راہل گاندھی آج کیرالہ دورہ پر ہیں آج صبح انھوں نے ملپورم میں ایک روڈ شو کیا جہاں لوگوں کی زبردست بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ وہ وائناڈ پارلیمانی حلقہ سے ملی جیت کا شکریہ ادا کرنے کیرالہ پہنچے ہیں۔ بدھ کے روز پہلے انھوں نے ملپورم میں روڈ شو کیا، اور پھر اس کے بعد وائناڈ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا۔ روڈ شو میں شامل ہونے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں یو ڈی ایف کے کارکنان اور حامی ایڈونّا میں جمع ہوئے اور سبھی نے راہل گاندھی کی حمایت میں نعرہ بازی کی۔

اس موقع پر راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں ایک انتہائی اہم بات لوگوں کے سامنے رکھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں کشمکش میں مبتلا ہوں۔ یہ کشمکش اس بات کو لے کر ہے کہ میں وائناڈ کا رکن پارلیمنٹ بنوں یا پھر رائے بریلی کا۔‘‘ دراصل راہل گاندھی نے وائناڈ اور رائے بریلی دونوں جگہ جیت حاصل کی ہے اور اب انھیں ایک سیٹ کو چھوڑنا ہوگا۔ اس تعلق سے راہل کہتے ہیں کہ ’’میں آپ سے وعدہ کروں گا کہ وائناڈ اور رائے بریلی دونوں ہی میرے فیصلے سے خوش ہوں گے۔‘‘

اس دوران راہل گاندھی نے اپنی کشمکش کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ایم مودی پر طنز کے تیر بھی چلائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’بدقسمتی سے مجھے وزیر اعظم کی طرح بھگوان کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملتا۔ میں تو ایک عام انسان ہوں۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ نے دیکھا ہوگا وزیر اعظم نے کس طرح ’400 پار‘ کا نعرہ دیا جو غائب ہو گیا، اور پھر ’300 پار‘ کی بات آئی۔ اس کے بعد انھوں نے کہا ’میں بایولوجیکل نہیں ہوں۔ میں کوئی فیصلہ نہیں لیتا۔ مجھے پرماتما نے اس زمین پر رکھا ہے اور وہی فیصلے کرتا ہے۔‘‘ راہل اتنے پر ہی خاموش نہیں ہوتے، وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ان کا عجیب ’پرماتما‘ انھیں امبانی و اڈانی کے حق میں تمام فیصلے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اسے کہتا ہے کہ بمبئی ایئرپورٹ، لکھنؤ ایئرپورٹ اور پاور پلانٹس اڈانی کو دے اور اور اگنی ویر جیسی اسکیموں کے لیے اس کی مدد کرے۔‘‘

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے راہل کہتے ہیں ’’بدقسمتی سے میرے پاس پرماتما کی طرف سے پیغام حاصل کرنے کی سہولت نہیں ہے۔ میرے لیے کچھ چیزیں بہت آسان ہیں۔ میرے لیے پرماتما ہندوستان کے غریب لوگ ہیں، وائناڈ کے لوگ ہیں۔ میں جا کر ان لوگوں سے بات کرتا ہوں اور میرا پرماتما مجھے بتاتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘

اپنی تقریر کے دوران راہل گاندھی نے لوک سبھا انتخاب 2024 کو آئین بچانے والا انتخاب بھی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’انتخاب سے پہلے آپ نے بی جے پی لیڈروں کو یہ کہتے ہوئے دیکھا ہوگا کہ وہ آئین کو پھاڑ دیں گے۔ پھر انتخاب کے بعد آپ نے وزیر اعظم کو آئین اپنی پیشانی سے لگاتے ہوئے دیکھا۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ایم مودی اور امت شاہ کے پاس سیاسی طاقت تھی۔ ان کے پاس ای ڈی، سی بی آئی، آئی ٹی ڈپارٹمنٹ تھا جس سے وہ لوگوں پر حکم چلاتے تھے۔ لیکن کیرالہ، اتر پردیش سمیت پورے ملک کی عوام نے انھیں بتا دیا کہ وہ کسی پر حکم نہیں چلا سکتے۔ ساتھ ہی عوام نے انھیں یہ بھی بتا دیا کہ آئین ان کی آواز ہے، اسے ہاتھ مت لگانا۔

’پی ایم مودی مسلم ٹوپی پہنیں گے تو اچھا پیغام جائے گا‘، بی جے پی کو اکثریت نہ ملنے سے نصیر الدین شاہ کو ہوئی خوشی!

0

لوک سبھا انتخاب 2024 میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی، اور اس نے این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کی مدد سے حکومت تشکیل دی۔ پی ایم مودی نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم عہدہ کا حلف لے لیا، لیکن اس بات سے کئی لوگ خوش ہیں کہ بی جے پی اپنے دَم پر حکومت تشکیل دینے میں ناکام ہو گئی۔ ایسے لوگوں میں مشہور و معروف اداکار نصیر الدین شاہ بھی شامل ہیں۔

نصیر الدین شاہ نے لوک سبھا انتخاب 2024 سے متعلق اپنی بات رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پی ایم مودی یہ بات مان چکے تھے کہ وہ تاحیات وزیر اعظم رہنے والے ہیں۔ اب پی ایم مودی کے لیے اتحاد والی حکومت چلانا ایک تلخ دوا کھانے جیسا ہوگا۔‘‘ نصیر الدین شاہ نے مزید کہا کہ جب انھیں پتہ چلا کہ بی جے پی کو اپنے دَم پر لوک سبھا انتخاب میں اکثریت نہیں ملی اور گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے اس نے اچھی کارکردگی نہیں کی تو انھوں نے راحت کی سانس لی تھی۔ اس خبر سے وہ بہت خوش ہوئے تھے۔

یہ باتیں نصیر الدین شاہ نے ’دی وائر‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہیں۔ انھوں نے پی ایم مودی کے بارے میں اپنے نظریات سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ کچھ سالوں سے لگاتار کم سمجھداری کی باتیں کر رہے ہیں۔ اگر پی ایم مودی اس بات کو مانتے ہیں کہ انھیں بھگوان نے زمین پر بھیجا ہے، یا پھر وہ خود ہی بھگوان ہیں تو عوام کو اس بات سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔

سینئر صحافی کرن تھاپر سے ہوئی اس بات چیت کے دوران نصیر الدین شاہ نے کہا کہ اگر پی ایم مودی مسلم ٹوپی پہن لیں تو اس سے اچھا پیغام جائے گا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سے مسلمانوں کے درمیان ایک پیغام جائے گا کہ مودی مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے ہیں۔ نصیر الدین شاہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پی ایم مودی مسلمانوں کو ایسا پیغام دیں گے تو یہ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا۔

آر ایس ایس کا بی جے پی پر سخت حملہ، کہا- ’لیڈر سیلفیاں لیتے رہے اور پارٹی الیکشن ہار گئی!‘

0

راشٹریہ سویم سنگھ (آر ایس ایس) کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے لوک سبھا انتخابات میں اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے پر بی جے پی پر تنقید کی ہے۔ سنگھ نے لکھا ہے کہ ایسے نتائج بی جے پی لیڈروں اور کارکنوں کی زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے آئے ہیں۔ آرگنائزر میں شائع مضمون میں رتن شاردا نے کہا ہے کہ عوام اور عام لوگوں کی آواز سننے کے بجائے بی جے پی کارکن وزیر اعظم نریندر مودی کی مدح سرائی کی چمک سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

مضمون کے آغاز میں سنگھ نے لکھا ہے کہ بھلے ہی مرکز میں تیسری بار مودی حکومت بنی ہے لیکن اس بار بی جے پی اپنے بل بوتے پر مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں پارٹی کی کارکردگی انتہائی خراب اور مایوس کن رہی۔ سنگھ نے کہا کہ انتخابی نتائج بی جے پی کے لیے زمینی حقیقت کو سمجھنے اور غور و خوض کرنے کا اشارہ ہیں۔

آر ایس ایس نے کہا ہے کہ بی جے پی لیڈر انتخابی حمایت کے لیے ‘سوم سیوکوں’ تک پہنچے ہی نہیں۔ یاد رہے کہ سنگھ اپنے کارکنوں کو سوم سیوک کہتا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ بی جے پی نے ان کارکنوں پر کوئی توجہ نہیں دی جو نچلی سطح پر کام کر رہے تھے۔ سنگھ نے انتہائی تنقیدی انداز میں کہا کہ بی جے پی نے ان کارکنوں پر اعتماد کا اظہار کیا جو ‘سیلفیوں’ کی مدد سے مہم چلا رہے تھے۔ سنگھ کے رکن رتن شاردا مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ انتخابی نتائج بی جے پی کو آئینہ دکھانے والے ہیں۔

سنگھ نے مہاراشٹر کو لے کر سخت تبصرہ کیا ہے۔ رتن شاردا نے مضمون میں لکھا ہے کہ بی جے پی مہاراشٹر کی سیاست میں بہت زیادہ سرگرم ہو گئی اور وہاں غیر ضروری سیاست کی گئی۔ اجیت پوار دھڑے کی این سی پی کے مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی وجہ سے بی جے پی کارکنوں میں غصہ ہے، جسے پارٹی نے تسلیم نہیں کیا۔ رتن شاردا کا کہنا ہے کہ این سی پی کے ساتھ آنے کی وجہ سے مہاراشٹر میں بی جے پی کی برانڈ ویلیو میں نمایاں کمی آئی ہے۔

رتن شاردا نے اگرچہ کسی لیڈر کا نام نہیں لیا لیکن لکھا کہ ایسے کئی سابق کانگریسی لیڈروں کو بی جے پی میں شامل کر لیا گیا، جنہوں نے بھگوا دہشت گردی کا نعرہ لگایا تھا۔ شاردا لکھتے ہیں کہ بی جے پی میں ایسے کئی لیڈر شامل تھے جنہوں نے 26-11 کے ممبئی حملوں کو آر ایس ایس کی سازش قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ مہاراشٹر کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی سب سے خراب رہی ہے۔ 2019 میں بی جے پی نے 48 میں سے 23 سیٹیں جیتی تھیں لیکن اس بار وہ صرف 9 سیٹیں جیت سکی۔ اس کے علاوہ شندے دھڑے کی شیوسینا 7 اور اجیت پوار کی این سی پی صرف ایک سیٹ ہی جیت پائی۔

سنگھ نے مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بی جے پی ووٹروں تک صحیح طریقے سے پہنچنے میں ناکام رہی ہے۔ رتن شاردا مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ پارٹی کے ایجنڈے کی وضاحت کرنا، پارٹی لٹریچر اور ووٹر کارڈ تقسیم کرنا پارٹی کی ذمہ داری ہے۔

رتن شاردا لکھتے ہیں کہ بی جے پی کارکنان اور پارٹی کے بہت سے لیڈر ٹھیک سے نہیں سمجھ سکے کہ ’400 پار‘ کا نعرہ دے کر مودی نے کارکنوں اور لیڈروں کے لیے ایک ہدف مقرر کیا تھا اور اپوزیشن کو بڑا چیلنج دیا تھا۔ لیکن اہداف محنت سے حاصل ہوتے ہیں نہ کہ سیلفی لینے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے۔ انہوں نے لکھا کہ ان انتخابی نتائج سے اور بھی بہت سے سبق ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

رتن شاردا نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ سنگھ بی جے پی کے لیے کام نہیں کرتا، یہ بی جے پی کے لیے فیلڈ فورس نہیں ہے۔ بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کے اپنے کارکنوں کی فوج ہے۔ ایسے میں پارٹی کے ایجنڈے کو عوام تک پہنچانا اور ووٹروں کی مدد کرنا ان کا کام ہے۔ شاردا نے یاد دلایا کہ 1973 سے 1977 کے عرصے کے علاوہ آر ایس ایس نے کبھی بھی براہ راست مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کسی سیاست میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں سنگھ نے 100 فیصد ووٹنگ کا مطالبہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس دوران بڑی تعداد میں ووٹروں نے ووٹ ڈالے تھے اور اقتدار کی تبدیلی ہوئی تھی۔ اس بار بھی سنگھ نے محلوں، سوسائٹیوں اور دفاتر کی سطح پر چھوٹی چھوٹی میٹنگیں کیں اور لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔ اس کے علاوہ، سنگھ نے قوم کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے بھی لوگوں کو بیدار کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایسی 1,20,000 میٹنگیں صرف دہلی میں ہوئیں۔

رتن شاردا نے لکھا ہے کہ اس کے علاوہ سوم سیوکوں نے انتخابی کاموں میں بی جے پی کارکنوں کی مدد بھی کی جس میں مقامی لیڈروں تک پہنچنا بھی شامل تھا۔ لیکن یہ کام بڑے پیمانے پر نہیں ہوا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بی جے پی کارکن ‘آئے گا تو مودی ہی‘ اور ’اب کی بار 400 پار‘ کے نعروں میں الجھے رہے۔ پرانے اور سرشار کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا اور جب خود بی جے پی کارکن ہی سنگھ کے سوم سیوکوں کے پاس نہیں جا رہے تھے تو پھر سوم سیوک بھی ان کے پاس کیوں جاتے؟

مضمون میں امیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ رتن شاردا لکھتے ہیں کہ یہ مفروضہ کہ مودی اکیلے تمام 543 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں، انتخابی شکست کی بنیاد بن گئی۔ بی جے پی نے پارٹی میں پرانے اور جیتنے والے امیدواروں کے بجائے نئے لوگوں کو ٹکٹ دیا جس سے کافی نقصان ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 25 فیصد امیدوار ایسے تھے جنہوں نے دوسری پارٹیاں چھوڑ دی تھیں۔ ہماچل میں بغاوت کا سامنا کرنے والی بی جے پی کے لیے اس طرح کا موقف اپنانا حیران کن تھا۔

سنگھ نے لکھا ہے کہ جب لیڈر عوام کی پہنچ سے باہر تھے، کارکنوں کو ان سے ملنے کا وقت نہیں مل رہا تھا اور وہ صرف فیس بک اور ٹوئٹر پر انگلیاں چلا رہے تھے، پھر وہ الیکشن کیسے جیت سکتے تھے۔