ہندو رسم و رواج کے تحت شادی کے لئے سات پھیرے لینا اور دیگر رسومات ادا کرنا ضروری: سپریم کورٹ
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ہندو شادی پر اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہندو میرج ایکٹ 1955 کے تحت شادی کے قانونی تقاضے اور اہمیت واضح کر دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ ’سنسکار‘ (روایت) ہے، لین دین نہیں، اس لیے محض سرٹیفکیٹ کافی نہیں۔ عدالت نے کہا کہ ہندو مذہب میں سات پھیروں اور دیگر رسومات ضروری ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ہندو میرج ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت شادی کا رجسٹریشن ضروری ہے اور سیکشن 7 کے تحت ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی ہونا بھی ضروری ہے۔
عدالت نے کہا کہ سیکشن 8 اس بات کا ثبوت ہے کہ سیکشن 7 کے تحت دو لوگوں نے تمام رسم و رواج کے ساتھ شادی کی ہے۔ جسٹس بی وی ناگارتنا اور جسٹس آگسٹین جارج میسی کی بنچ نے فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی جوڑا مستقبل میں الگ ہونا چاہتا ہے تو ثبوت کے طور پر شادی کے دوران ہونے والی رسومات کی تصاویر پیش کرنا ضروری ہے۔
بنچ نے کہا کہ شادی تجارتی لین دین نہیں ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان رشتہ قائم کرنا ایک ضروری عمل ہے، تاکہ دونوں مل کر ایک خاندان بنائیں، جو ہندوستانی سماج کی بنیادی اکائی ہے۔ عدالت نے کہا کہ شادی ایک رسم ہے اور اسے معاشرے میں ایک عظیم ادارے کے طور پر جگہ دی جانی چاہیے۔ ہم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ شادی کرنے سے پہلے گہرائی سے سوچیں کہ ہندوستانی معاشرے میں یہ ادارہ کتنا مقدس ہے۔
بنچ نے مزید کہا کہ شادی محض شراب پینے، کھانے، ناچنے یا غیر ضروری دباؤ میں جہیز اور تحائف لینے دینے کی تقریب نہیں ہے، جس کی وجہ سے مجرمانہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
بنچ نے کہا کہ ہندو میرج ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت شادی کا رجسٹریشن ضروری ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شادی سیکشن 7 کے تحت ہندو رسم و رواج کے مطابق ہوئی ہے۔ سیکشن 5 میں کہا گیا ہے کہ شادی سیکشن 7 کی دفعات کے مطابق رسم و رواج کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر کسی شادی میں اس کی عدم موجودگی نظر آتی ہے تو ایسی شادی کو قانون کی نظر میں ہندو رسم و رواج کے تحت کی گئی شادی قرار نہیں دیا جائے گا۔