کوچی: کیرالہ ہائی کورٹ نے آئندہ ملیالی فلم ’انٹونی‘ کے ایک منظر، جس میں بائبل میں بندوق رکھی جاتی ہے، کے خلاف عرضی کا حوالہ دیتے عقیدے کے معاملہ میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی جانب اشارہ کیا۔
جسٹس رام چندرن نے پوچھا، ’’کیا ہمیں اتنا عدم روادار ہونا چاہئے کہ کسی کتاب کے ایک مختصر حوالہ پر بھی اعتراض ظاہر کریں؟ خواہ وہ بائبل ہو، تو کیا آ بغیر کسی منفی حوالہ یا معنی کے بھی اعتراض ظاہر کر دیں گے؟‘‘ عدالت نے تبصرہ کیا کہ منظر میں چاہئے کسی بھی مذہب کی مقدس کتاب کا استعمال کیا گیا ہو، کوئی نہ کوئی طبقہ ناخوش ہوگا۔
منی پور میں پھر تشدد: عسکریت پسندوں کا سیکورٹی فورسز پر حملہ، ایک عہدیدار جان بحق
جج نے کہا، ’’فلم میں بائبل کا استعمال بندوق چھپانے کے لیے کیا گیا ہے، اس لئے عیسائی ناراض ہیں، اگر یہ گیتا ہوتی تو ہندو ناخوش ہوتے اور اگر قرآن ہوتی تو مسلمان ناخوش ہوں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ 160 اور 70 کی دہائی کی انگریزی فلموں میں اثر اس طرح کے مناظر ہوتے تھے۔
شمالی ہند میں دھند کی آفت! دہلی میں 110 سے زیادہ پروازیں متاثر، ٹرینیں تاخیر کا شکار
جج نے کہا، ’’بائبل میں بندوق رکھنا 60 اور 70 کی دہائی میں انگریزی فلموں میں کئی مرتبہ دکھایا گیا ہے، ملیالی لوگ ایسا اب کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے پوچھا کہ عرضی گزار بائبل کے ساتھ اس مختصر منظر پر اعتراض ظاہر کیوں کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ عرضی گزار فلم ’انٹونی‘ کی ریلیز کو چیلنج کر رہا تھا۔
اصلی شیو سینا معاملہ: ادھو ٹھاکرے و راہل نارویکر کی ایک دوسرے پر شدید تنقید
عدالت نے کہا کہ فلم کو سنسر بورڈ سے منظوری حاصل ہو گئی ہے اور منظر میں بائبل کو پہلے ہی دھندلا کر دیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کے جج نے کہا، ’’اس عرضی سے صرف فلم بنانے والوں کو فائدہ ہوگا۔ کیا انہوں نے ہی آپ سے یہ عرضی دائر کرنے کو کہا ہے؟ یہ کون سی فلم ہے، انٹونی؟ کیا کسی نے اسے دیکھا ہے؟ اس فلم کی سنسر بورڈ پہلے ہی جانچ پڑتال کر چکا ہے۔‘‘
سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے پولیس نظام میں اصلاح کی ضرورت: دہلی ہائی کورٹ
ہائی کورٹ کے جج فلم کے قابل اعتراض منظر کو عدالت میں دیکھنے کے لیے تیار ہو گئے اور وکیل سے اسے پیش کرنے کو کہا۔ معاملہ کی آئندہ سماعت دو ہفتوں کے بعد طے کی گئی ہے۔