فروغِ اردو کے لیے اردو تعلیم کے نظام کو استحکام بخشنا ضروری: شفیع مشہدی
قومی اردو کونسل کا سہ روزہ سمینار بعنوان ‘ اردو زبان کا مستقبل وکست بھارت @2047 کے تناظر میں ‘اختتام پذیر
پٹنہ/نئی دہلی : قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام سہ روزہ سمینار بعنوان اردو زبان کا مستقبل وکست بھارت @2047 کے تناظر میں’ بحسن و خوبی آج اختتام پذیر ہوا۔ اختتامی اجلاس کی صدارت شفیع مشہدی نے کی، جبکہ مہمان خصوصی پروفیسر اعجاز علی ارشد اور مہمانانِ اعزازی پروفیسر ارتضیٰ کریم اور امتیاز احمد کریمی تھے۔ شفیع مشہدی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ وکست بھارت کے تناظر میں اردو زبان کا مستقبل یقیناً قابلِ غور و فکر ہے اور ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ وکست بھارت میں اردو ریڈرشپ اور اردو کے تصنیفی سرمایے کی نوعیت کیا ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اگلے پچیس برسوں میں وکست بھارت تو یقینی ہے مگر وکست اردو کے لیے ہمیں بیداری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ شفیع مشہدی نے کہا کہ اردو کے مستقبل کے تحفظ کے لیے تعلیم کی سطح پر اردو کی ترویج نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر ہم اردو کے مستقبل کے تئیں مطمئن نہیں ہوسکتے۔ مہمان خصوصی پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان ہر زمانے میں اپنے دور کے سماجی رویوں اور روایات کی نمائندہ رہی ہے اور بدلتے حالات میں اس نے اپنے اندر تبدیلی بھی پیدا کی ہے، لہٰذا یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وکست بھارت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ہماری زبان کی نثر اور شعر دونوں میں ایسی تخلیقات سامنے آئیں گی جو تقاضاے عہد سے ہم آہنگ اور خوش اسلوبی کی آئینہ دار ہوں گی۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنے خطاب میں کہا کہ وکست بھارت کے حوالے سے اردو زبان و ادب میں متوقع تبدیلیوں اور انقلابات پر غور و خوض اور تبادلۂ خیال کے ذیل میں یہ سمینار نہایت کارگر رہا۔ انھوں نے کہا وکست بھارت میں اردو زبان کے ادبی و تصنیفی سرمایے میں اوریجنلیٹی پر زور دینے کے ساتھ سرقے کا سراغ لگانے کے لیے تکنیکی ذرائع کا اکتشاف و استعمال ضروری ہے، اسی طرح انٹرنیٹ پر موجود کتابوں کو یونی کوڈ ورژن میں دستیاب کرانا بھی ضروری ہے، تاکہ اردو مواد انٹرنیٹ پر بہ آسانی سرچ کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ وکست بھارت میں اردو کے مستقبل کے تحفظ لیے ٹکنالوجی کا نہایت مفید اور مؤثر استعمال کرنا ہوگا۔ امتیاز احمد کریمی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی اردو کونسل کا یہ سہ روزہ سمینار نہایت کامیاب رہا جس میں اسکالرز اور دانشوران نے وکست بھارت کے تناظر میں اردو کے ممکنہ کردار پر بھرپور روشنی ڈالی، اب ضروری ہے کہ اس سمینار کے دوران پیش کی گئی تجاویز پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اردو میں عصری موضوعات، سائنس، کمپیوٹر سائنس، ڈیٹا سائنس اور مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے بھی اردو کتابیں شائع کی جانی چاہئیں۔ اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ وکست بھارت کی بنیادوں میں اردو سمیت ہندوستان کی تمام زبانوں کی ترقی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سمینار کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وکست بھارت کے تناظر میں اردو زبان کی تعلیم، ٹکنالوجی سے اس زبان کی ہم آہنگی، ہندوستانی نالج سسٹم اور صحافت، فکشن و شاعری کے شعبوں میں ضروری تبدیلیوں کی نشان دہی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک وسیع الجہات موضوع ہے جس پر کچھ اہم نکات اس سمینار میں سامنے آئے ہیں اور توقع ہے کہ اس پر تحقیق، تجزیہ اور علمی و عملی کاوشوں کا سلسلہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔ انھوں نے اس سمینار کے انعقاد میں تعاون پیش کرنے والے پٹنہ کے اہل علم و دانش، ریسرچ اسکالرز، صحافی برادری اور تمام سامعین و شائقینِ اردو کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عظیم آباد نے اپنی بے پناہ علم و ادب نوازی کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے ہمارا یہ سمینار تاریخی کامیابی سے ہم کنار ہوسکا ہے۔ ان کے اظہارِ تشکر کے ساتھ یہ سہ روزہ سمینار اختتام کو پہنچا۔
قبل ازاں سمینار کا چوتھا اجلاس ‘ ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو صحافت کا کردار ‘ کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر مشتاق احمد، محمد افضل اور فخر الدین عارفی نے کی، جبکہ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر اسفر فریدی (اردو صحافت میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی) اور ڈاکٹر زین شمسی (اردو صحافت اور ہندوستان کے معاصر سماجی و ثقافتی مسائل) شامل تھے، شرکاے بحث کے طور پر معین گریڈیہوی، ڈاکٹر شاہد اختر انصاری اور ڈاکٹر صابر رضا رہبر نے اس سیشن میں حصہ لیا۔ پانچویں اجلاس کا عنوان تھا ‘ اردو فکشن میں سماجی اور ثقافتی جہات(وکست بھارت کے خصوصی حوالے سے) ‘۔ اس اجلاس کی صدارت جناب مشتاق احمد نوری اور ڈاکٹر علی امام نے کی، جبکہ مقالہ نگاروں میں پروفیسر ابو بکر عباد (اردو فکشن میں دیہی ہندوستان کی عکاسی)، پروفیسر شہاب ظفر اعظمی (اردو فکشن میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی) اور ڈاکٹر زرنگار یاسمین (اردو فکشن کے کردار اور معاصر ہندوستانی سماج) شامل تھے اور شرکاے بحث کے طور پر ڈاکٹر علائالدین خان اور ڈاکٹر فاروق اعظم اس سیشن کا حصہ تھے۔
سمینار کا چھٹا اجلاس ‘ اردو شاعری میں ہندوستان کی تعمیر و ترقی کا وژن ‘ کے عنوان سے تھا۔ اس کی صدارت پروفیسر جاوید حیات اور پروفیسر صفدر امام قادری نے کی۔ اس اجلاس کے مقالہ نگار پروفیسر ابوبکر رضوی(اردو شاعری میں قومیت کا تصور)، پروفیسر حامد علی خاں(اردو شاعری میں مشترکہ افکار و اقدار کی عکاسی)، ڈاکٹر نسیم احمد نسیم (بہار،پروفیسر زین رامش اور پروفیسر زاہد الحق (اردو شاعری اور معاصر سیاسی و سماجی سروکار) تھے۔ بدر محمدی اور ڈاکٹر بالمیکی رام نے بطور شرکاے بحث حصہ لیا۔اختتامی اجلاس کے بعد ‘ شامِ غزل’ کے پروگرام میں مشہور غزل سنگر امریش مشرا اور ان کی ٹیم نے سامعین کو اپنی خوب صورت گلوکاری سے محظوظ کیا۔
(رابطہ عامہ سیل)



